17 Apr

Aye Fatima Ka Sath Daen-آیئے فاطمہ کا ساتھ دیں

”کیا جاننے والے ہی دوست ہوتے ہیں“۔
اس سوال کے جواب سے پہلے ایک خط پڑھنا ضروری ہے۔ فاطمہ رضوی کا یہ خط:
”وہ ایک دکھ بھرا دن تھا۔
میرے بھائی تقی نے سینے میں شدید درد کی شکایت کی۔ ہم اسے لے کے ہسپتال روانہ ہوئے لیکن ڈاکٹرز کسی نتیجے پہ نہ پہنچ سکے۔ چند ہی دنوں بعد تشخیص ہوگئی۔ اسے کینسر تھا۔ بیس سالہ تقی رضوی ایل ایل بی کی تیاری کررہا تھا۔ کچھ ہی دنوں بعد اس کا امتحان تھا لیکن اب اسے ایک اور امتحان کا سامنا تھا۔ شوکت خانم میں علاج شروع ہوا۔ کیمو تھراپی کے ساتھ ساتھ شعائیں بھی استعمال ہوئیں۔ کچھ ہی عرصہ میں بہتری آنا شروع ہوگئی اور علاج کام یاب قرار دیا گیا۔ تقی نے پھر سے کالج جانا شروع کیا اور مئی 2013 میں قانون کی تعلیم مکمل کرلی۔ اس روز وہ بے حد خوش تھا اس نے دو امتحانوں میں کام یابی حاصل کی تھی۔ بھائی کے علاج کے لیے میری والدہ نے دن رات ایک کردیا۔ وہ دکھ کے ان لمحوں میں ہمیشہ مسکراتی رہیں۔ لیکن یہ مسکراہٹ اس روز ختم ہوگئی جب انھیں یہ علم ہوا کہ وہ کئی سال سے ہیپا ٹائٹس کی مریض ہیں اور ان کا جگر مکمل طور پر ناکارہ ہوچکا ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ زندگی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے جگر کی پیوند کاری۔ میں اپنے بارے میں کچھ بتا دوں۔ میرا نام فاطمہ ہے اور میرے والدنے بہت قربانی دے کے مجھے انجینئر بنایا۔ میں امریکہ میں کام کرتی ہوں۔ جوں ہی والدہ کی علالت کی خبر ملی مجھے واپس آنا پڑا۔ ان کے علاج کے لیے ایک کروڑ کے لگ بھگ رقم درکار تھی۔ماں سے بڑھ کر عزیز اور کون ہوسکتا ہے۔ ہم نے اپنے اثاثہ جات فروخت کیے اور رقم کاانتظام ہوگیا۔ اگلا مرحلہ جگر کی فراہمی کے لیے ڈونر ڈھونڈنا تھا۔میں نے خود کو ڈونر کے طور پر پیش کیا اور ہم تبدیلی ئ جگر کے لیے بھارت پہنچ گئے۔ تقی‘ میرا بھائی جو خود ابھی کینسر کے موذی مرض سے چھٹکارے کی جدوجہد میں مصروف تھا‘بھی ہمارے ساتھ گیا۔ایک کام یاب اپریشن کے بعد ہماری والدہ کا جگر تبدیل ہوگیا اور ہم واپس لوٹ آئے۔ ایک بار پھر خوشیوں کے ساتھ۔ میرے زخم بھرنے میں ابھی چھے ماہ اور لگیں گے۔ یہ احساس میرے لیے روحانی مسرت کا باعث تھا کہ میں نے جان پہ کھیل کے اپنے جگر کا ایک حصہ والدہ کو پیش کیا ہے۔ خوشی اور اطمینان۔ چند ہی ہفتے گذرے ہوں گے کہ تقی کو سینے میں درد کا وہی حملہ ہوا۔ایک بار پھر درد و غم‘ ایک بار پھر بے بسی‘ ایک بار پھر شوکت خانم۔ لیکن اس بار ڈاکٹرز نے بھی ہتھیار پھینک دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ اب ان کے پاس علاج ممکن نہیں۔ دکھ بھرا انجام ہمارے سامنے تھا۔ آنسو‘ آہیں اور مایوسی۔ لیکن میں نے شکست نہ مانی اور نیٹ پر تحقیق کا آغاز کردیا۔ روشنی کی ایک ہلکی سی کرن نظر آئی۔امریکا کی انڈیانا یونی ورسٹی کے ڈاکٹرز نے علاج کی حامی بھر لی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس علاج پر تین کروڑ روپے تک صرف ہوسکتے ہیں۔ میرے والد ایک سرکاری ملازم ہیں اور وہ بھی رٹائرمنٹ کے قریب۔ ہمارے پاس جو کچھ تھا میری تعلیم‘ بھائی اور ماں کی بیماری پہ صرف ہوگیا۔ درمیانے طبقہ سے تعلق رکھنے والے گھرانے کے پاس ہوتا ہی کیا ہے۔ دکھ‘ مشکلیں اور پھر کچھ امیدیں۔ لیکن پچھلے سال سے ہماری امید کا سورج ہر روز طلوع ہوتا ہے ہر روز غروب ہوتا ہے۔ اس موقع پر میرے چند دوستوں نے مجھے ہمت دی اور میں نے ان کی مدد سے تقی کے علاج کے لیے ایک مہم چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس مہم کا عنوان ہے www.gofundme.com/88c4t8 اور ای میل ایڈریس ہے fundsfortaqi@gmail.com لیکن دکھ یہ ہے کہ میرے دوست بہت کم ہیں۔ تقی کے دوست بھی زیادہ نہیں۔ لیکن کیا جاننے والے ہی دوست ہوتے ہیں۔ انسانیت کے رشتے سے تو ہم سب دوست ہیں۔ میرا ایک ہی بھائی ہے۔ ہنستا‘ مسکراتا‘ تقی رضوی ……جس کی قانون کی ڈگری منتظر ہے کہ وہ عدالت میں انصاف کی آواز بن کے گونجے…… اسے بھی زندگی سے محبت ہے۔میں اور میری والدہ ابھی مکمل صحت یاب نہیں ہوئیں۔ رٹائرمنٹ کے قریب والد اور متوسط گھرانے کے مسائل۔ مجھے یقین ہے آپ سب لوگ تقی کی زندگی بچانے میں ہماری مدد کریں گے۔ سیدہ فاطمہ رضوی“۔
میں فاطمہ رضوی کو پندرہ سال سے جانتا ہوں۔ اس نے زندگی میں جو جدوجہد کی ہے اس سے بھی آگاہ ہوں۔ اس مہم میں اپنا معمولی حصہ ڈال چکا ہوں۔ میری درخواست ہے کہ آپ بھی اپنا حصہ ڈالیں۔بے شک وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔ایک سو‘ پانچ سو یا ایک ہزار۔ مجھے یقین ہے ہم سب مل جل کر وہ کندھا بن سکتے ہیں جہاں فاطمہ رضوی کا خاندان سر رکھ کے دو آنسو بہا سکے گا۔ یہ آنسو دکھ کے نہیں خوشی اور اطمینان کے آنسو ہوں گے۔ اس امر کا ثبوت ہوں گے کہ صرف جاننے والے ہی دوست نہیں ہوتے۔ آیئے فاطمہ کی مدد کریں۔