07 Jun

Batae Howe Din Yaad Ate Hain-بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں

خواتین و حضرات
ماضی ایک گل دستے کی طرح ہے جس سے آنے والی مہک مشامِ جاں کو معطر رکھتی ہے۔
اسی حوالے سے میں آج‘ اپنی دو یادیں آپ کے گوش گذار کروں گا۔ یہ یادیں نہیں ماضی کے جھروکوں میں روشن دو دیئے ہیں۔ ایک دیئے کا نام اسلامیہ پرائمری سکول اور دوسرے کا نام خواجہ عبدالستار ہے۔ پاکستان کے ایک دور افتادہ شہر کمالیہ میں ایک چھوٹا سا پرائمری سکول ہے جسے لوگوں نے چندہ جمع کرکے بنایا۔ ان دنوں اس شہر میں تعلیمی ادارے بہت کم تھے۔ بچے گلی کوچوں کی خاک چھانتے۔ انجمن اسلامیہ کے نام سے ایک ادارہ بنا اور اپنی مدد آپ کے تحت ایک سکول وجود میں آگیا۔اس کا نام اسلامیہ پرائمری سکول کمالیہ رکھا گیا۔ کچھ ہی عرصے میں یہ ضلع بھر کا بہترین سکول بن گیا۔ شہر کے بچوں میں مقابلے کا امتحان ہوتا۔جو بہترین ہوتے‘ وہ اس سکول کے لیے منتخب ہوجا تے۔جو باقی بچتے‘ وہ حکومت کے سکولوں میں چلے جاتے۔سکول کیا تھا۔ خستہ حال فرش‘ ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں‘ ڈھیلی چولوں والے دروازے‘ رِستی ہوئی چھتیں‘ پٹ سن کے پھٹے ہوئے ٹاٹ‘ استادوں کے لیے مختلف ڈزائن کی کرسیاں‘ پانی پینے کے لیے ہینڈ پمپ جس کی ہتھی اکثر غائب رہتی۔ بچے ہی استاد کی کرسی اٹھاتے اور بچے ہی کمروں کی صفائی کرتے۔ نہ لائبریری‘ نہ ٹائلٹ‘ نہ تختہ ئسیاہ۔پانچ استاد۔ تین استاد فرشتہ صفت جب کہ بقیہ دو محنت سے بھی جی چراتے اور کبھی کبھار گالیاں بھی دیتے۔ اس کے باوجود اسلامیہ پرائمری سکول اس قصبے کا بہترین سکول تھا۔ یہاں سے پڑھ کے بچے کسی بھی ہائی سکول میں جاسکتے تھے۔ ان کے دلوں میں ایسی امنگ بیدار ہوتی جو انھیں آسمان کو چھونے پہ آمادہ کرتی اور وہ کسی اور دنیا کے خواب دیکھنے لگتے۔ میں نے اپنی زندگی کے دو سال اس سکول میں گزارے‘ پر پیچ گلیوں میں واقعہ شکستہ درودیوار۔ یہاں سے نکل کر گورنمنٹ کالج‘ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج‘ سول سروسز‘ امیریکن یونی ورسٹی واشنگٹن ڈی سی اور پھر اخوت کا طویل سفر………… اس تمام سفر میں یہ سکول ہمیشہ میرے ہم رکاب رہا۔اس کی یادیں مجھے پُر امید کرتی رہیں۔
پھر‘کبھی کبھار اسلامیہ سکول کمالیہ میں گزرے ان دو برسوں سے پہلے کے دو برس بھی یاد آتے جب ایک فرشتہ صفت شخص میرے استاد تھے۔ ان کا نام خواجہ عبدالستار تھا۔خواجہ عبدالستار نے میری تعلیم کی ابتدا حروف تہجی اور خوش خطی سکھانے سے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جن کا خط اچھا ہوتا ہے ان کی سوچ اور عمل بھی اچھا ہوتا ہے۔ ایک روز کہنے لگے آج میں تمھیں ایک شعر یاد کرواؤں گا۔وہ اقبال کا مشہور شعرتھا:
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک ِ مدینہ و نجف
مجھے ایک مدت تک اس شعر کے معنی بھی سمجھ نہ آئے۔ میں ہر روز تین بار یہ شعر تختی پہ لکھتا اور اتنی ہی بار بآوازِ بلند انھیں سناتا۔ نہ جانے میں یہ عمل کتنے عرصے دہراتا رہا‘ایک سال یا پورے دو سال۔ یہاں تک کہ یہ الفاظ میرے شعور اور لا شعور میں اتر کر خون میں سرایت کرگئے۔ چالیس برس یہ شعر میرے ذہن کو کشادہ کرتا رہا۔ نجانے کہاں کہاں خاک چھانی۔اسلامیہ پرائمری سکول کمالیہ سے امیریکن یونی ورسٹی واشنگٹن ڈی سی تک۔ لیکن مدینہ کی وہ نسبت قائم رہی جو خواجہ عبدالستار نے جوڑی اور پھر ایک روز یہی نسبت اخوت کے قیام کا باعث بنی۔ کچھ لوگ آج بھی پوچھتے ہیں کہ اخوت کیا ہے۔ کوئی این جی او‘ کوئی بنک‘ کوئی تحریک کہ اس نے کچھ ہی عرصہ میں پانچ لاکھ گھرانوں کو اربوں روپے کے بلاسود قرضے دے دیئے۔ خواتین و حضرات! بظاہر اخوت دنیا میں قرضِ حسن کا سب سے بڑا ادارہ ہے لیکن اصل میں یہ مواخاتِ مدینہ کی بازگشت ہے۔ آج اس مقام پہ کھڑا میں سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ خستہ حال سکول نہ ہوتا‘خواجہ عبدالستاریہ شعر یاد نہ کرواتے تو شاید یہ ادارہ بھی وجود میں نہ آتا۔ماضی کے جھروکوں میں ٹمٹماتا ہوا یہ شعر اور اس سے پھوٹتی ہوئی روشنی۔
خواجہ عبدالستار صاحب میں آپ کا مشکور ہوں۔ پانچ سال کی عمر میں ایک بچے کو جو درس آپ نے دیا وہ درس اسے آج بھی یاد ہے۔
(یہ مضمون انتظار حسین کی زیر صدارت اور عطاء الحق قاسمی کے زیرِ اہتمام ”بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں“ نامی تقریب میں پڑھا گیا)۔