20‘ جنوری باچا خان کا یوم وفات ہے۔
باچا خان ہماری تاریخ کا ایسا کردارہیں جنھیں سمجھنے میں بہت سے لوگوں نے بھول کی۔ کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر اور کچھ لوگوں نے انجانے میں۔ باچا خان زندگی بھر
اس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔ جیسے کوئی مشکلات کو شکست دینے کے بعد سرخرو کھڑا ہو۔
ہال میں بارہ سو سے زائد افراد موجود تھے۔وہ ایک لمحہ کے لیے رکا اور پھر کہنے لگا ”بچپن میں مجھے
کیا امارت بھی کوئی راز ہے؟
ان دنوں میں یہ راز جاننا چاہتا تھا۔ 1990۔ سول سروس سے نیا نیا رشتہ جڑا اور میری تعیناتی چنیوٹ ہوگئی۔ بطور اسسٹنٹ کمشنر۔چنیوٹ دریائے چناب کے کنارے ایک خوب صورت شہر ہے۔ قدیم
دسمبر کی ایک یخ بستہ سہ پہر اورپرائم منسٹر آفس۔تین سو افراد۔ سکردو‘ لسبیلہ‘ کوہاٹ‘ لیہ‘ کوئٹہ‘ٹھٹھہ ……پورے پاکستان سے آنے والے یہ لوگ وزیراعظم قرضہ سکیم کی اس تقریب میں خصوصی طور پر مدعو کیے گئے۔تین سال قبل شروع
ایک شخص کتنے بڑے خواب دیکھ سکتا ہے۔
کوئی یہ بات جاننا چاہے تو کراچی جاکر ڈاکٹر ٹیپو سلطان سے مل سکتا ہے۔ ان کے پاس ان کے والد‘ ابو ظفر اور والدہ ڈاکٹرعطیہ خاتون کی خوابوں بھری کہانی ہے۔
قراقرم‘ ہندوکش‘ ہمالیہ……ان ناموں سے ذہن میں ایک ہی تصور ابھرتا ہے‘ گلگت بلتستان۔بہت دنوں بعد وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر طرف غیر معمولی منظر اور قدرتی حسن۔ لوگ ہی نہیں پہاڑ بھی کروٹ لے رہے ہیں۔ گہماگہمی‘ رونق……امکانات
لاہورمیں قائم ٹرسٹ سکول ان چند اداروں میں سے ایک ہے جو دردمندی کے احساس پر قائم ہو ئے۔ اس سکول میں پڑھنے والے بچے اب عملی زندگی میں داخل ہو رہے ہیں۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ٗ یہ
محسن حکومتِ پاکستان کا انتہائی ذہین ٗ محنتی اور فرض شناس افسر ہے۔ اس کے شاندار کیریر کے پیشِ نظر ایک بین الاقوامی یونیورسٹی نے اسے سکالرشپ دینے کا فیصلہ کیا تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے فوراََ
یہ ایک استاد کی کہانی ہے جس کے بارے میں اس کے ایک شاگرد نے کہا:
He was an educationist extraordinare, loved by his students,
admired by his peers, and honoured by heads of states…
اس کہانی کا آغاز آج
شہید کی ماں نے گفت گو کا آغاز کیا تو ہر طرف خاموشی سی چھا گئی۔
اتنی گہری خاموشی کہ سانسوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ ان کی بات دل سے نکلی اور دل تک پہنچ گئی۔یہ کوئی معمولی کہانی