13 Mar

Dubai Aur Karachi-دبئی اور کراچی

سنا ہے یہ شعر‘ مغل شہنشاہ نور الدین جہاں گیر نے کشمیر کے بارے میں کہا تھا ؎
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
جی چاہتا ہے کہ اب یہ شعر شاعر سے مستعار لے کر دبئی کی نذر کردیں کہ دبئی کا گوشہ گوشہ بھی فردوس بن چکا ہے۔ ہر طرف سبزے کی چادر اور پھول ہی پھول۔ چند دہائیاں قبل کسے خیال تھا کہ صحرا کا صحرا نخلستان میں ڈھل جائے گا۔ کشادہ سڑکیں‘ طویل شاہ راہیں‘ بلند عمارتیں‘ زیر زمین ہوٹل اور شفاف جھیلیں …… دبئی دنیا کا منتخب شہر بنتا جارہا ہے۔ مرکزِ نگاہ‘ مرکز ِ شوق۔ سیاحوں کی ایک فوج ِ ظفر موج ہے جو سارا سال اس شہر کا طواف کرتی ہے جو ں ہی آپ ایئر پورٹ پر اتریں ایک نئی دنیا دکھائی دینے لگتی ہے۔ بہت جلد یہ ایئر پورٹ دنیا کا سب سے بڑا ایئر پورٹ بن جائے گا۔ آبادی محض اکیس لاکھ اور کاروں کی تعداد گیارہ لاکھ۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہو گا کہ اس شہر کی بنیاد 1833 میں اس وقت پڑی جب قبیلہ بنی یاس کے آٹھ سو افراد یہاں آکے ٹھیرے اور پھر چل سو چل۔ اب تو یہ جگہ سمندری تجارت کا ایک اہم مرکز بن گئی ہے اور اسے مشرقِ وسطیٰ کا کاروباری اور ثقافتی مرکز بھی کہتے ہیں۔
تیل‘ سیاحت‘ رئیل اسٹیٹ‘ فنانشل سروسز‘ دبئی کی معیشت کے کئی رخ ہیں۔ دنیا کی خوب صورت اور بلند ترین عمارتیں۔ سمندر کے بیچ گھس کر بنائے گئے ایسے ایسے جزیرے اور شاپنگ مال جو یورپ اور امریکہ سے بھی بازی لے گئے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس صحرا کو جنوبی ایشیا کے خون پسینہ نے آباد کیا۔ پاکستان‘ سری لنکا‘ بنگلا دیش اور بھارت۔ ان چار ممالک کے محنتی لوگ اپنے اپنے وطن سے نکلے۔ ان کے دست و پا‘کدال بن گئے اور ایک جنت تعمیر ہونے لگی۔ اس جنت کی سب سے بلند عمارت برج خلفیہ ہے جو دنیا کی بلند ترین عمارت بھی ہے۔ ستائیس سو فٹ بلند‘ صحرائی پھولوں اور اسلامی فنِ تعمیر کا امتزاج۔ دنیا کا واحد سیون سٹار ہوٹل بھی یہیں واقع ہے۔ یہ ہوٹل سمندر کے بیچ ایک مصنوعی جزیرے میں تعمیر کیا گیا ہے۔ اس ہوٹل میں ایک کمرے کا کم از کم کرایہ ایک لاکھ روپے ہے۔ بہترین کمروں کا روزانہ کرایہ تیس لاکھ سے بھی زائدہے۔”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“۔ دبئی قدرتی آفات سے بھی محفوظ ہے۔ زلزلوں کے مراکز سے بہت دور۔ یہاں سونامی یا کسی اور سمندری طوفان کا بھی خدشہ نہیں۔امنِ عامہ اور منشیات کے بارے میں قوانین بے حد سخت ہیں۔منشیات آپ کے کپڑوں سے چھوکر بھی گذر جائیں تو آپ جیل جاسکتے ہیں۔اسلام سرکاری مذہب ہے لیکن یہاں ہر مذہب کے پیرو کار رہتے ہیں۔ہندو‘ مسلم‘ سکھ‘ عیسائی‘ بدھ۔ مساجد زیادہ تر حکومت کی مدد سے تعمیر ہوتی ہیں۔ ان کے امام بھی حکومت مقرر کرتی ہے لیکن مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے کی کم از کم سزا شہر بدری ہے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ انسانی حقوق کے اشارئیوں میں دبئی دنیا بھر میں چودھویں نمبر پہ ہے۔ امریکا کچھ ہی پیچھے یعنی بیسیویں نمبر پہ کھڑا ہے۔ گویا انسان حقوق کا تعلق صرف آزادی ئ اظہار سے نہیں۔ تعلیم‘صحت‘ گھر‘ روزگار کی فراہمی بھی انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔تحمل اور برداشت‘ باہمی احترام اورا پنے کام پہ توجہ۔ اسّی فیصد سے زائد آبادی غیر مقامی ہے۔ دنیا کے ہر ملک کا باشندہ یہاں موجود ہے۔ سوبلین کے قریب جی ڈی پی……معیشت کی تعمیر کا آغاز تیل سے ہوا لیکن اب تیل کی آمدنی جی ڈی پی کا صرف سات فی صد ہے۔ خدشہ ہے کہ اگلے بیس سال میں سارا تیل ختم ہو جائے گا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جس شہر میں ہرسال ایک کروڑ سیاح آئیں اس کی معیشت کمزور نہیں ہوسکتی۔
اب تو سیرو سیاحت اور کاروبار کے ایک اور سنگ ِ میل ایکسپو 2020 کا فیصلہ بھی دبئی کے حق میں ہوگیا ہے‘جس کے نتیجہ میں غیر معمولی معاشی سرگرمیاں سامنے آئیں گی۔ روزگار کے کم از کم تین لاکھ مواقع پیدا ہوں گے۔
دبئی صحرا میں کھلا ہوا ایک پھول ہے دل کش اور دل فریب! اس کی خوب صورتی متحیر بھی کرتی ہے اور مسحور بھی۔ میں کچھ دوستوں کے ساتھ حیرت میں گھِرا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ میاں عمر ابراہیم‘ خواجہ تنویر‘ اظہارالحق‘ عمر اور احمد۔ ڈاکٹر کامران شمس نے کہا……”یہ سب ناقابل ِ یقین ہے‘ ناقابلِ یقین۔لیکن اتنے وسائل کے باوجود ہم یہ کیوں نہ کرسکے“ اس سوال نے چونکا سا دیا۔ہم بہت دیر اس کا جواب ڈھونڈتے رہے۔ انہی کشادہ سڑکوں پہ چلتے چلتے‘جہاں کبھی ریت اڑتی تھی اور بنو یاس کے آٹھ سو افراد زندگی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔ دبئی سے کچھ ہی فاصلہ پر کراچی بھی واقع ہے۔وہ صبح کب طلوع ہوگی جب کوئی مسافر کراچی کے ساحل پہ لنگر انداز ہو اور اسے وہاں یہ تحریر لکھی ہوئی نظر آئے ؎
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است