09 Aug

Heere Aur Jawaherat-ہیرے اور جواہرات

کبھی کبھی مجھے کچھ گم نام سپاہی یادآتے ہیں۔وہ گم نام سپاہی جن کے سینے پہ کوئی تمغا آویزاں نہیں ہوتا‘جن پہ کوئی کہانی نہیں بنتی‘ کوئی کتاب نہیں لکھی جاتی۔ وہ رات ٗ دن‘ سختیوں سے بے نیاز اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔ انھیں نہ تو شہرت کی پروا ہے نہ نام کی۔ ان کی محنت‘ ان کی وفا‘یہ سب ناقا بلِ یقین ہے۔ وہ کام کو عبادت سمجھتے ہیں۔ محمد اسلم جب پہلے دن ملازمت کے لیے آیا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اتنی خوبیوں کا مالک ہوگا۔ اس نے جس والہانہ جذبے کا مظاہرہ کیا‘ وہ ہمارے لیے حیرت کا باعث بن گیا۔ اس کی کارکردگی مثالی تھی۔وہ ایک بہترین منتظم ثابت ہوا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اس کے پاس آئے اور وہ اس کی محبت میں گرفتار نہ ہو‘ خوش مزاج‘ خوش اخلاق‘ خوش گفتار۔ اس کی تعلیم میٹرک ہے لیکن ایک منتظم کے لیے جو بھی خصوصیات درکار ہیں‘ وہ اس کے ہاں بخوبی موجود ہیں۔ یہ سب کچھ اس نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے‘ اچھی سوچ‘ اچھا عمل‘ اچھی گفت گو۔ وقت کیسے استعمال کرنا ہے‘ مسائل کیسے سلجھانے ہیں‘لوگوں کو ساتھ لے کے کیسے چلنا ہے۔ محمد اسلم وعظ و نصیحت کے انبار لگانے پہ یقین نہیں رکھتا۔ وہ عمل کی راہ پہ چلتا ہے۔ وہ ایک روحانی آدمی بھی ہے۔ میں نے ایک بار اس سے کہا کہ محنت تو بہت سے لوگ کرتے ہیں لیکن تمھاری طرح کام یاب نہیں ہوتے۔تمھاری کام یابی کا راز کیا ہے۔ میں ”درود شریف“ پڑھتا ہوں۔ محمد اسلم نے پوری سچائی سے جواب دیا۔”سنا ہے‘ علامہ اقبالؒ نے ایک کروڑ بار درود شریف پڑھا تو وہ شاعر سے شاعرِ مشرق بن گئے“۔ اس نے جواب دیا۔”تاثیر صرف محنت سے نہیں۔ تاثیر تو کرم اور نظر سے آتی ہے۔ درود شریف پڑ ھنے کے بعد میں جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں‘ وہ کام ہو جاتا ہے۔ سارا دن مجھے ایک عجیب سی کیفیت گھیرے میں لیے رکھتی ہے‘ نہ کوئی خوف‘ نہ بے چینی۔“ محمد اسلم ہر وقت درود شریف کا ورد کرتا ہے۔میں اسے دیکھتا ہوں تو منیر نیازی کا یہ شعر یاد آنے لگتا ہے ؎
میں کہ اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم ِ محمد شاد رکھتا ہے مجھے
میں محمد اسلم کی طرح کے کئی اور لوگوں کو بھی جانتا ہوں۔ ایسے ہی ایک شخص کانام ندیم ڈیوڈ ہے۔ ندیم ڈیوڈ بھی اجلے کردار کا مالک ہے۔ نہ اس نے کبھی جھوٹ بولا‘ نہ کسی سے جھگڑا کیا‘ نہ کسی کا دل دکھایا‘ نہ کسی کا حق مارا۔سکول نہ جانے کے باوجود وہ حسنِ تربیت سے مالا مال ہے۔ کیسے؟ یہ بھید اللہ ہی جانتا ہے۔
اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ میں فادر جوزف نے دیا۔ فادر نے کہا‘ یہ بہت ہیرا آدمی ہے لیکن وہ اس سے بھی بڑھ کر نکلا۔ فادر نے تعریف میں بخل سے کام لیا تھا۔وہ ایسا آدمی ہے جسے کوئی ذاتی غرض ہی نہیں‘ جو تن خواہ لیتے ہوئے بھی جھجکنے لگتا ہے۔ ٹوٹے پھوٹے گھر‘ خستہ حال گلیاں‘ کیچڑ سے اٹے ہوئے محلے‘ جہاں مکھیوں‘ مچھروں‘ غلاظت اور بدبو کے سوا اور کیا ہے۔ ندیم ڈیوڈ‘ قینچی چپل پہن کے ان خارزار راستوں پہ سفر کرتا رہا۔ وہ رات کو گھر پہنچتا تو اس کی ایٹرھیوں سے خون رستا اوروہ درد کی وجہ سے ساری رات سو نہ سکتالیکن اگلی صبح زخموں پر پٹی باندھ کر پھر دفتر پہنچ جاتا۔ وہ مشکلیں دیکھ کے خوش ہوتا ہے۔اس نے اپنے لیے کبھی کچھ نہیں مانگا۔ گرمیوں کی چلچلاتی ہوئی دھوپ‘ لُو اور پھر حبس‘ برسات میں ہرطرف برستاہو اپانی اورندیم ڈیوڈ۔ رزقِ حلال اگر ہے‘ تو یہی ہے۔
کبھی کبھی اسے افسوس ہوتا ہے کہ وہ پڑھا لکھا نہیں۔ لیکن تعلیم نہیں تو کیا‘ درد بھی تو انسان کو کام یابی کے سارے گر سکھا دیتا ہے۔ ندیم ڈیوڈ ایک دیوانہ ہے۔ اس کا دیوانہ پن اس کے کام سے جھلکتا ہے۔ وہ اپنے ادارے کے ذریعے اب تک ہزارہا لوگوں کی مدد کر چکا ہے۔ اس کے دامن میں ان گنت لوگوں کے آنسو جمع ہیں۔ یہ آنسو نہیں‘ موتی ہیں‘ہیرے جواہرات سے بڑھ کر۔ مجھے یقین ہے کہ ایک روزجب اللہ کا دربار لگے گا تو ان موتیوں کی چمک لوگوں کی نگاہیں خیرہ کردے گی۔یہ موتی اس کے لیے نجات کا ذریعہ بن جائیں گے۔ آیئے ہم بھی کوشش کریں کہ ہمارے دامن میں کچھ موتی جمع ہوجائیں۔ ہزاروں نہیں بس چند ایک۔