31 May

Jaag Pakistani Jaag-جاگ پاکستانی جاگ

اس شخص کا نام بہرام ڈی آواری ہے۔ یہ پاکستان کی پارسی کمیونٹی کا سربراہ ہے۔ اس کی شیریں بیانی متاثر کرتی ہے۔ اس نے اپنی کہانی شروع کی تو دل میں جگہ بنانے لگا۔ سچ کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے والد نے انشورنس ایجنٹ کے طور پر کام کا آغاز کیا۔ یہ پچھلی صدی کے اولین دن تھے۔ ممبئی اور کراچی۔ یہ دونوں شہر اس وقت چند لاکھ افراد پہ مشتمل ہوں گے۔ انشورنس کا کاروبار بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اس وقت تو اور بھی مشکل تھا۔ لیکن والد صاحب محنت کے عادی تھے۔ آگے بڑھتے رہے۔ جب بھی وہ کسی بڑے کاروباری کو ملتے اس کی عادات کا جائزہ لینے لگتے۔ انھیں ان خوبیوں کی تلاش تھی جو کاروبار میں کام یابی کا زینہ بنتی ہیں۔انھیں بہت سے لوگوں سے ملنے کا موقعہ ملا۔ ہررنگ‘ نسل اور مذہب کے لوگ۔ ان کے اس تمام مشاہدہ کا حاصل یہ تھا کہ کام یاب لوگوں میں دو خوبیاں ہوتی ہیں‘ محنت اور وفاداری۔ اپنے کام سے وفاداری‘ اپنے لوگوں سے وفاداری۔انھوں نے دونوں خوبیاں اپنا لیں۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ ہوٹلنگ کی صنعت کی طرف متوجہ ہوئے اور آج ان کا خاندان اس صنعت میں ایک معتبر نام ہے۔ کراچی کا آواری ٹاور‘ بیچ لگثرری اور لاہور کا آواری ہوٹل انھی کی ملکیت ہے۔ پاکستان میں ہوٹلوں کے علاوہ دبئی اور ٹورنٹو میں بھی ان کے ہوٹلز ہیں۔بہرام آواری پاکستان کے لیے ایشین گیمز میں دو بار گولڈ میڈل جیت چکا ہے۔اب آتے ہیں اس کہانی کی دوسری طرف۔ بدامنی‘ اغوا‘ لوٹ مار‘ تشدد‘ بھتہ۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوئی توبہرام آواری دل برداشتہ ہونے لگا۔ اسے کئی بار اس ملک سے باہر جاکر آباد ہونے کا موقعہ ملا لیکن وہ ڈٹا رہا۔ اس نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔”مجھے اپناکاروبار پاکستان میں ہی کرنا ہے“۔ اس بات کے مخاطب تو اس کے بچے اور اہلِ خانہ تھے لیکن ایک اور بات جو اس نے کہی وہ پورے پاکستان کے لیے ہے۔ ”پاکستان کے سبز جھنڈے پہ سفید پٹی اقلیتوں کی نمایندگی کرتی ہے۔ یہ اس امر کا اعلان ہے کہ یہ ملک اقلیتوں کے حقوق کا محافظ بھی ہے“۔ بہرام ڈی آواری کا کہنا تھا کہ”1947 میں صرف کراچی میں پچیس ہزار پارسی آباد تھے لیکن آج پورے ملک میں صرف سولہ سو پارسی رہتے ہیں“۔ یہ لوگ کہاں چلے گئے‘ کیوں چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ جبر کے ماحول میں تو پرندے بھی دم گھٹ کے مرجاتے ہیں۔ یہ تو پھر انسان ہیں۔ ریشم کی طرح ملائم‘ پھول کی طرح نازک۔ لوگ اس طرح گھر چھوڑ کے جانے لگیں تو بستیاں ویران ہوجاتی ہیں۔ بہرام ڈی آواری کا یہ فقرہ بہت اہم تھا:
“We should take care of white on our flag”
ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ امن اور سلامتی کے پیامبر۔ہم برصغیر میں اقلیت میں تھے۔ گویا یہ ملک ایک اقلیت نے بنایا۔ اس خوف سے کہ کہیں اس اقلیت کا تشخص‘ اس کی اقدار‘ اس کا عقیدہ نہ مٹ جائے۔ وہ اقلیت جب اکثریت بنی تو تحمل کی روش برقرار نہ رکھ سکی۔ عیسائی بستیوں میں آگ کیوں لگتی ہے۔ ہندو اور سکھ خود کو غیر محفوظ کیوں سمجھتے ہیں۔ پارسی ہجرت کیوں کرجاتے ہیں اور قادیانی تشدد کی چکی میں کیوں پستے ہیں۔ بہرام آواری سے ملاقات کے اگلے ہی روز چناب نگر سے ایک اندو ہناک خبر آئی۔ امریکا سے آنے والے ایک قادیانی ڈاکٹر کو سرِ عام قتل کردیا گیا۔ کہتے ہیں وہ چند روز سے ایک فری میڈیکل کیمپ چلارہا تھا۔ وہ جو زخموں پہ مرہم رکھنے کے لیے آیا خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔مقتول ڈاکٹر کی بیوی اور معصوم بچہ اس کا بہتا ہوا لہو دیکھتے رہے۔ وہ کھل کے رو بھی نہ سکے کہ کوئی شخص انھیں دلاسا دینے کے لیے بھی تیار نہ ہوا۔ اس ظلم پر انسانیت آنسو بہائے یا ماتم کرے۔ میرے کانوں میں بہرام آواری کی درد بھری آواز گونجتی ہے:
“We should take care of white on our flag”
بہت سال پہلے قائداعظم نے کہا تھا کہ”سنو! آج پاکستان بن گیا۔ آج تم سب آزاد ہو۔ جاؤ اپنے چرچ‘ اپنے گوردوارہ‘ اپنے مندر میں۔ آج کے بعد عقیدے کی بناء پر کوئی تفریق نہ ہوگی“۔ مجھے تحریک ِ پاکستان کے ایک اور رہ نما کی بات یا د آئی۔”اقلیتوں کی جان‘ مال‘ آبرو اور خون ہماری اپنی جان‘ مال‘ آبرو اور خون سے زیادہ محترم ہے کہ وہ پاکستان کے برابر کے شہری ہونے کے علاوہ اکثریت کی پناہ میں ہیں۔ ان سے ہمارا سلوک ہمارے کردار کی گو اہی بن جائے گا“۔کیا ہم یہ سب بھول گئے…… جاگ پاکستانی۔ جاگ۔ کسی لوک شاعر نے کہا تھا ”سسیئے بے خبرے‘ تیرا لٹیا شہر بھنبھور“ (سسی! تیرا شہر لٹ گیا کیا تجھے ابھی بھی خبر نہیں)۔
کن نیندوں محوِ خواب ہے اے چشم ِ گریہ ناب
مژ گاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا