27 Mar

Kahen Kahen Say Agar Zindage Rafu Ker Loon-کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کرلوں

اچھے لوگوں کی طرح اچھی کتابیں بھی ایک نعمت سے کم نہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ نعمتیں ہم سے روٹھ چکی ہیں۔ ایک روز A man in the Hat” “نامی ایک کتاب پڑھی تو یوں لگا جیسے ابھی بھی ہر نعمت نہیں روٹھی۔ جیسے خدا ابھی مہربان ہے۔یہ کتاب” “Noel Cossinsنامی ایک شخص نے لکھی اور اس کا موضوع شعیب سلطان ہیں۔ شعیب سلطان جنہوں نے اپنی زندگی کے پچاس برس دیہی ترقی اور غربت کے خاتمہ میں بسر کر دیئے۔ کتنی ہی منزلوں سے گذر کر وہ شمالی علاقوں میں پہنچے اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی بنیاد رکھی اور پھر یہ سلسلہ سارے جنوبی ایشیاء میں پھیل گیا۔انسان اپنے حصار سے نکلتا ہے تو ایک علامت بن جاتا ہے۔ شعیب سلطان اپنی ذات کے حصار سے نکلے تو علامت بن گئے۔ ترقی اور خود انحصاری کی ٗ امید اور جستجو کی ٗ اخلاص اور عمل پیہم کی۔
یہ کتاب شعیب صاحب کی داستانِ حیات بھی ہے اور غربت کے خاتمہ کی جدوجہد بھی۔ کچھ خواب ٗ کچھ آرزوئیں اور پھر حیرت وحسرت۔ لکھنؤ یونیورسٹی اور کیمبرج کے فارغ التحصیل اس شخص نے جو خواب دیکھا اس کی تعبیر آسان نہ تھی۔ غربت کے خاتمہ کا خواب! کوئی اور ہوتا توحیات کی زلفِ پریشاں میں الجھ جاتا لیکن وہ نہ تو اپنی آرزو سے باز آئے ٗ نہ آبلہ پائی سے۔ راستے کی صعوبتیں ان کے شوق کو مہمیزکرتی رہیں۔ ان کا پیغام جدوجہد تھا۔ بس ایک ہی دھن کہ کسی طرح ان لوگوں پہ زندگی مہربان ہو جائے جو بھیک نہیں مانگتے‘ اپنا حق مانگتے ہیں۔شعیب سلطان محبت اور ایثار کے پیامبر ہیں۔ وہ بغاوت نہیں کرتے۔ وہ غریب کی طاقت کے معترف ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ غریب اکیلا کچھ نہیں کر سکتا۔ وہ حیات کی تارتار قبامیں پیوند لگا نا چاہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کوئی خدائے لم یزل سے مخاطب ہو کے کہہ رہا ہو:
کشیدہ کارِ ازل تجھ کو اعتراض کوئی
کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کرلوں
شعیب صاحب نے زندگی کا ایک بڑا حصہ گلگت ٗ بلتستان اور چترال میں گذارا۔ بلندوبالا پہاڑ ٗ آسمان کو چھوتی ہوئی چوٹیاں اور پتھروں سے سر پھٹکتا ہوا دریائے سندھ۔ قدرت نے ان کو بھی ان پہاڑوں کی سی بلندی عطا کر دی۔ تحمل‘ تدبر‘ تفکر۔ جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحِ زمانہ۔ شعیب صاحب دلوں کو فتح کرتے ہیں۔ ایثار اور قربانی۔ جنون اور دیوانگی۔ شعیب صاحب سے میرا رشتہ اس وقت استوار ہوا جب میں نے سول سروس سے رخصت لے کر پنجاب رورل سپورٹ پروگرام میں شمولیت اختیار کی۔ ان کی باتیں سنیں تو احساس ہوا کہ غربت سے بڑا کوئی المیہ نہیں۔ یہی وہ عفریت ہے جس کی کوکھ سے ظلم جنم لیتا ہے۔ اور پھر بہت سال بعد ایک روز شعیب صاحب نے مجھے “A man in the hat”نامی یہ کتاب بھجوائی اور کہا کہ مجھے اس پہ مضمون لکھنا ہے۔ میں نے اس کتاب کو کھولا تو اس میں گم ہونے لگا۔سات سو صفحات پر مشتمل۔ یہ کتاب ترقی کی گرو گرنتھ صاحب ہے۔ ایک صنم خانہ‘ ایک طلسم کدہ۔ جو بھی اس میں داخل ہوا باہر نہ نکل سکا۔ خوبصورت کردار ٗ دلکش کہانیاں اور سچے واقعات۔
ایک شخص پہ کتاب لکھنا آسان ہے لیکن ایک تحریک پہ کتاب لکھنا آسان نہیں۔ مصنف نے پہلے ایک شخص کو تحریک بنایا اور پھر اس تحریک میں پوشیدہ جوہر کو آفاقی اقدار سے ہم آہنگ کردیا۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ شعیب سلطان کے گرد نہیں بلکہ ایک نظریئے کے گرد گھومتی ہے۔ وہ نظریہ جو مروجہ نظام کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کا نقیب ہے۔جو غریب کو عزتِ نفس دیتا ہے۔ سنا ہے یہ کتاب امریکہ کے صدر ابامہ کے بھی زیرِ مطالعہ ہے۔ اگر صدر ابامہ کوئی ایسا سماج تشکیل دینا چاہتا ہے جو غربت اور ظلم سے پاک ہو تو اس کا راستہ شعیب سلطان جیسے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔ شعیب صاحب کے بیسیوں اقوال ان صفحوں پہ بکھرے پڑے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سماجی کارکن استاد کا درجہ رکھتا ہے۔ اسے صوفیانہ خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے۔ سماجی کارکن کی معراج یہ نہیں کہ وہ کتنے لوگوں کی خدمت کرتا ہے۔ اس کی معراج یہ ہے کہ وہ اپنے جیسے کتنے اور لوگ پیدا کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سماجی تحریک ٗ دِیئے سے دِیا روشن کرنے کا نام ہے۔ جس نے نیکی کا ایک دِیا جلایا اس نے گویا پوری کائنات کو روشن کر دیا۔
افسوس یہ ہے کہ حکومتیں ابھی تک اس رازکو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسی لئے تو افلاس کے سائے گہرے ہو رہے ہیں۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کشکول ِ گدائی اُٹھانے سے غربت کا داغ مٹ جائے گا تو غلط سمجھتا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ ا یسا نہیں ہوتا۔ غربت کے خاتمہ کے لئے خود انحصاری درکار ہے‘ادارے درکار ہیں۔ شعیب سلطان غلط ہو سکتے ہیں لیکن تاریخ غلط نہیں ہو سکتی۔ لوگوں کی مدد ٗ لوگوں کے ذریعے وجود میں آنے والے اداروں سے ہی ہو تی ہے۔ غربت کے خاتمہ کا پتھر کوئی اور نہیں خود غریب لوگ اٹھائیں گے۔ تنظیم ٗ تربیت ٗ مقامی قیادت اور امدادی تنظیمیں۔ “A man in the hat” غربت کے خاتمہ کا عملی نصاب ہے۔ مصنف نے ایک غیر ملکی ہونے کے باوجود ہمارے مزاج کو سمجھا۔ لوگوں کے دل میں جھانکا۔ جھوٹ اور سچ‘ محبت اور نفرت‘ امید اور ناامیدی‘ یقین اور بے یقینی……یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ مصنف نے شعیب سلطان کو دیوتا نہیں بنایا…… بس ایک انسان ہی رہنے دیا۔ ایسا انسان جو محبت بھی کرتا ہے اور نفرت بھی……جو کبھی کسی کے آنسو پونچھتا ہے اور کبھی خود آنسو بہاتا ہے۔ جو گر تا بھی ہے اور گرے ہوؤں کو تھامتا بھی ہے۔ کبھی گوہر کبھی شبنم کبھی آنسو۔ پرُ وقار‘ پُر امید۔
کتاب کے مصنف نول کاسنز نے وہ کام کیا جو شاید کوئی پاکستانی نہ کرسکے۔ اتنی محنت‘ جستجو اور عرق ریزی۔ان تمام جگہوں کی آبلہ پائی جہاں شعیب سلطان نے قدم رکھا…… ہمالیہ‘ قراقرم اور ہندوکش سے لے کر بحیرۂ عرب اور پھر سارا جنوبی ایشیاء۔ نول کاسنزترقی کے مسائل سے بھی آگاہ ہے اور اسے کہانی کہنے کا فن بھی آتا ہے۔ وہ بھی حیات کی بوسیدہ قبا کو سینا چاہتا ہے۔ وہ کوئی مصور ہے یا رفو گر۔ میں اس شخص سے نہیں ملا۔ میں اسے نہیں جانتا لیکن لگتا ہے پچھلے کسی جنم میں وہ یہیں کہیں رہتا تھا۔ میرے آس پاس۔ گلگت‘ بلتستان کے بلند پہاڑوں میں‘ سندھ کی گل پوش وادیوں میں‘ تھر کے تپتے ہوئے ریگستانوں میں۔
نگر‘ ہنزہ‘ گلگت‘ شمشال‘ خوبصورت اور گل پوش وادیاں۔ رات کا پچھلا پہر۔ نخل فلک سے گرتے ہوئے ستارے۔ دھیمی ہوتی ہوئی روشنی۔ مجھے لگتا ہے نول کاسنز بھی شعیب سلطان کی طرح خدائے لم یزل کے حضور سجدہ ریز ہو کر یہی کہہ رہا ہے:
کشیدہ کارِ ازل تجھ کو اعتراض کوئی
کہیں کہیں سے اگر زندگی رفو کرلوں