21 Mar

Kia Main Urr Sakta Hoon-کیا میں اُڑ سکتا ہوں

یہ دو کہانیاں مجھے محترمہ عنبرین ساجد کے فون پر یاد آئیں۔ عنبرین‘ وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکرٹریٹ میں کام کرتی ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر وقت ضرورت مندوں کی آنکھ سے آنسو پونچھتی رہیں۔ پہلی کہانی ساجن سرفراز کی ہے۔
ساجن سرفراز کی عمر چودہ سال ہے اور وہ پانچویں کلاس کا طالب علم ہے۔ایک مرلہ کے مکان میں وہ اپنے ماں باپ اور پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ رہتا ہے۔ ساجن کے والد پتنگوں میں استعمال ہونے والے بانس کے چھوٹے چھوٹے تیر بناتے ہیں جس سے انھیں ایک ماہ میں چار سے پانچ ہزار کی آمدنی ہو جاتی ہے۔ اس کی والدہ ایک فیکٹری میں ڈرائی فروٹ‘ لفافوں میں پیک کرتی ہے۔وہ تقریباََ پندرہ سو روپیہ ماہوارکما لیتی ہیں۔ گھر کے یہ سات افراد اسی آمدنی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
ساجن کو پانچ ماہ کی عمر میں پولیو کا حملہ ہوا اور اس کا نچلہ دھڑ بیکار ہو گیا۔ کئی جگہ سے علاج کروایا گیا لیکن ساجن کی ٹانگیں ٹھیک نہ ہو سکیں۔ پہلے پہل وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا تھا لیکن بڑا ہونے کے بعد اس میں ٹانگوں پرکھڑا ہونے کی سکت بھی نہ رہی۔ ساجن کو پڑھنے کا شوق ہے۔ وہ سینٹ جوزف سکول شاہدرہ میں پانچویں کلاس میں پڑھتا ہے۔ سکول جانا اور پھر واپس آنا‘ اس کا انحصار اس بات پر تھا کہ گھر کاکوئی فرد یا محلے دار اسے اٹھا کر سکول چھوڑ آئے۔سکول میں بھی اسے گھسٹ کر چلنا پڑتا تھا جس سے گھٹنوں پر گہرے زخموں کے نشان پڑ جاتے۔ ان زخموں سے رستا ہو ا خون دیکھ کر وہ بڑی دیر تک روتا رہتا اور ماں باپ سے سوال کرتا کہ کیا اس معذوری کا کوئی علاج نہیں۔ساجن کو جب ایک روز ایک ادارے کی جانب سے تحفہ میں ایک ویل چیئر پیش کی گئی تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اسے یکدم یوں لگا جیسے جنت مل گئی ہو۔ اس کے ہم جماعت اس کی ویل چیئر گھسیٹ کر سکول لے جاتے ہیں۔ سکول میں بھی اب اسے زمین پرگھسٹنا نہیں پڑتا۔ استاد کہتے ہیں کہ اس ویل چیئر کی بدولت اس کا احساسِ کمتری بھی کم ہونے لگا ہے۔ ساجن ولد سرفراز مسیح ابھی پڑھنا چاہتا ہے۔ شایدجو خواب اس نے دیکھے وہ پورے ہو سکیں۔
دوسری کہانی وقاص کی ہے۔
سترہ سالہ وقاص الرحمان ایک آرٹسٹ ہے۔ اسے رنگوں کا شوق ہے اور وہ تصویریں بناتا ہے۔ فطرت کے خوبصورت رنگ۔ جب وہ اڑتے ہوئے پرندوں کی تصویر بناتا ہے تو خود کو ان کے ساتھ اڑتا ہوا دیکھتا ہے لیکن اڑنا تو دور کی بات وہ تو چلنے سے بھی معذور ہے۔ وقاص الرحمان کی ٹانگیں بھی کام نہیں کرتیں اور ہاتھ بھی۔ قلم ہو یا برش۔ وہ ان دونوں کو اپنے ہونٹوں سے پکڑتا ہے اور پھر رنگوں کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ رنگ‘ فطرت کے حسین رنگ۔ اس کا کہنا ہے تصویر ہاتھوں سے نہیں خیال سے بنتی ہے۔ ہاتھ تو محض ذریعہ ہیں۔ مصوری کے بعد وقاص کا دوسرا شوق کمپیوٹر ہے۔ کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ وہ کمپیوٹر کا کی بورڈ اپنی ناک اور ٹھوڑی کی مدد سے استعمال کرتا ہے۔وقاص الرحمان کی معذوری پیدائشی ہے۔ لیکن اس نے اس معذوری کے ہاتھوں ہار نہیں مانی۔ پرائمری‘ مڈل اور پھر میٹرک۔ یہ تمام امتحان اس نے امتیازی حیثیت سے پاس کئے۔ اب وہ لاہور کے ایک آرٹ کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ آٹھ افراد پر مشتمل اس گھرانے کی کل ماہانہ آمدنی صرف ساڑھے سات ہزار روپے ہے۔ اس کے باوجود والدین نے نجانے کہاں کہاں سے اس کا علاج کروایا۔لیکن انہیں کوئی مسیحا نہ مل سکا۔ وقاص الرحمان کو جب وہیل چیئر کا تحفہ ملا تو وہ خوشی سے جھومنے لگا۔ ”میں تعلیم حاصل کر کے ایک بڑا آرٹسٹ بننا چاہتا ہوں۔ میں چل تو نہیں سکتا لیکن میری تصویروں میں اڑتے ہوئے پرندے مجھے یقین دلاتے ہیں کہ میں بھی پرواز کی طاقت رکھتا ہوں۔“ وقاص الرحمان نے یہ کہا اور برش ہونٹوں میں تھام کر وہیل چیئر کی تصویر بنانے لگا۔
یہ ویل چیئرز جس شخص کی جانب سے مہیا کی گیئں اس کا نام انور صادق ہے۔ بے لوث‘ بے غرض۔ اس شخص کا کہنا ہے کہ کوئی بھی معذور شخص اگر ویل چیئر خریدنے کی سکت نہیں رکھتا تو وہ اسے ویل چیئر فراہم کرے گا۔آپ ایسے کسی بھی شخص کی مدد کرنا چاہیں تو ان نمبرز پر فون کریں 042-35847861-5,042-35122743۔ میاں انور صادق کی طرف سے دی گئی ویل چیئر کا پہیہ جب تک گھومے گا اس کی نیکیوں کے ساتھ ساتھ آ پ کی نیکیوں میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔اور زندگی تو ہے ہی نیکیوں کی تلاش اور جست جو!