06 Feb

Kia Mochi Hona Jurm Ha?-کیا موچی ہونا جرم ہے؟

شاہ پور کسی زمانے میں ضلع ہوا کرتا تھا لیکن اب یہ سرگودہا کی ایک تحصیل ہے۔ شاہ پور سے چند کلومیٹر کے فاصلہ پر‘ دریائے جہلم کے نزدیک‘ بکھر بار نامی ایک قصبہ ہے جس کی آبادی تیس ہزار کے لگ بھگ ہو گی۔میکنوں ٗ ٹوانوں ٗ اور مہروں کی جاگیروں میں گھرا‘ یہ گاؤں نما قصبہ غربت کا وہی نقشہ پیش کرتا ہے جو پنجاب کے عام قصبوں اور دیہاتوں میں نظر آتاہے۔دکھ‘ درد اور بے بسی۔ غربت یہاں بھی مکمل محرومی کا نام ہے۔ ”د ریا کی منہ زور لہریں ہر سال ہمیں تباہ کرنے آتی ہیں لیکن ان لہروں سے کہیں منہ زور میکن ٗ ٹوانے اور مہر ہیں۔ دریا تو آکے واپس لوٹ جاتا ہے لیکن جاگیردارانہ سوچ سے ہمیں نجات نہیں ملتی۔ زمینوں کی تقسیم سے جاگیروں کا طلسم ٹوٹا اور پھر سیاسی بیداری اور تعلیم نے کچھ کچھ حوصلہ دیا لیکن ہماری اکثریت اب بھی غلامی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے۔بے بس ٗ مجبور اور لاچار۔ خوفزدہ۔ یہ قصبہ قیامِ پاکستان سے بہت پہلے آباد ہوا۔اس وقت یہاں ہندو بھی رہتے تھے اور سکھ بھی۔ پاکستان بننے کے بعد ہندو اور سکھ چلے گئے اور مہاجرین آکر آباد ہو گئے لیکن آبادی کی تبدیلی کے باوجود پرانا جاگیر دارانہ تسلط ابھی تک برقرار ہے“۔
بہت سال پہلے اس گاؤں میں اجالا ویلفیئر سوسائیٹی کے نام سے ایک چھوٹی سی فلاحی تنظیم کام کرتی تھی۔ یہ تنظیم زیادہ تر غریب گھرانوں کے افراد پہ مشتمل تھی۔ تنظیم کے ایک سرگرم رکن نے ایک بار مجھے بتایا۔”بکھر بار کے لوگ دنیاسے بہت پیچھے ہیں۔ شاید پچاس برس ٗ سو برس یا اس سے بھی زیادہ۔ ہمارے قصبہ کی گلیاں دیکھیں ٗ گھروں کی تعمیر دیکھیں ٗ نکاسیئ آب کا نظام دیکھیں۔ تیس ہزار کی آبادی کے لئے لڑکیوں کا کوئی ہائی سکول نہیں۔ یہاں سرکاری ڈاکٹر کبھی نہیں آیا۔ واٹر سپلائی کی ایک سکیم ہے جو کئی کئی ماہ بند رہتی ہے۔کچے راستے ٗ غلاظت سے اَٹے ٗ بدبو سے لدے۔ہم نے مل کر ایک سکول بنایا۔ قبرستان کی چار دیواری تعمیر کی۔ سڑکوں پہ سولنگ لگوائی۔ ہمارے کچھ لوگ اتنے غریب تھے کہ انہیں کفن بھی نصیب نہ ہوتا۔ ہم نے کفن کا بندوبست کیا۔ قبریں کھدوانے کے لئے چندہ مہم شروع کی۔ متبرک کاغذات اکٹھا کرنے کے لئے ٹوکریاں بنائیں۔ واپڈا کی شکایات کے ازالہ کے لئے ایک مرکز قائم کیا۔بجلی کے بِل اکٹھے کر کے شہر لے جانے کا انتظام ہوا۔ ہم نے ان گھرانوں کی بھی نشاندہی کی جو ہم میں سب سے زیادہ غریب تھے۔ وہ بیوائیں ٗ محتاج ٗ معذور اور عمر رسیدہ افراد جن کا بھری دنیا میں کوئی نہیں۔ ہم انہیں ہر تہوار پر کپڑے اور اناج دیتے ہیں تاکہ دکھ اور محرومی کا احساس کچھ تو کم ہو“۔یہ شخص مجھے بہت دیر تک اپنی ہمت کی کہانی سناتا رہا۔لہجے میں مایوسی کے باوجود اس کی نگاہوں میں روشنی تھی‘ جیسے کہیں دور سورج طلوع ہو رہا ہو۔
گرمیوں کی شام اور حبس۔ ہم باتوں میں مصروف تھے کہ ایک شخص آہستہ آہستہ چلتا ہوا آیا اور ایک چارپائی کی پائنتی پہ بیٹھ گیا۔ اس نے تہبند اور قمیض پہن رکھی تھی۔ قمیض کے بٹن کھلے تھے اور اس کی چھاتی نظر آرہی تھی۔ میں نے اسے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ وہ موچی تھا۔ موچیوں کی چھاتی لوہے کی آر پر کام کرتے کرتے ایک خاص انداز میں ڈھل جاتی ہے۔میں نے اس شخص کا نام پوچھا۔”دوست محمد“۔ اس نے بتایا۔ میں نے حال احوال پوچھنے کے بعد اجالا سوسائیٹی کے بارے میں پوچھا۔ میں کچھ باتوں کی تصدیق چاہتا تھا۔ پہلے تو وہ کچھ خاموش رہا لیکن رفتہ رفتہ حوصلہ پکڑنے لگا۔ اس کا کہنا تھا کہ ”ہاں یہ اچھے لوگ ہیں۔ مہربان ٗ شفیق ٗ مددگار۔ یہ لوگ تعلیم پھیلا رہے ہیں۔ شاید میرے چار بچے بھی پڑھ لکھ جائیں اور بکھر بار کے ان اندھیروں سے نکل جائیں جہاں میں نے ساری زندگی گذار دی۔ بکھر بار نے مجھے عزت نہیں دی۔ میں یہاں کا موچی ہوں۔آپ کو علم ہے موچی بننا کیا ہوتا ہے۔ جن ہاتھوں سے آپ قرآن پڑھتے ہیں‘ روٹی کھاتے ہیں میں انھی ہاتھوں سے جوتے سیتا ہوں۔جوتوں کی گندگی میر ی جھولی میں گرتی ہے اور میں پھر بھی انھیں سیتا رہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں جوتوں کی یہ گندگی اب میرے بچوں کا مقدر نہ بنے۔ میں چاہتا ہوں وہ کچھ بن جائیں۔ میں ان کے ہاتھوں میں کتاب دیکھنا چاہتا ہوں“۔ دوست محمد اپنی بے بسی اور امیدوں کا نقشہ کھینچ رہا تھا۔ ”میں نے پچیس سال مہروں اور میکنوں کے جوتے مرمت کئے۔ اب تو وہ مجھے بھی ایک جوتا سمجھنے لگے ہیں۔ ایک موچی اور وہ بھی بکھر بار کا۔ خدا کسی کو اس مجبوری کا شکار نہ کرے۔”اَن پڑھ اور گنوار‘ دوست محمد‘ محفل میں موجود تمام لوگوں کو جوتے لگا رہا تھا۔”میرا ایک بچہ میٹرک کر کے نیوی میں بھرتی ہو گیاہے۔کراچی بہت دور ہے۔ شاید اس کی زندگی بدل جائے۔ شاید ہم بھی مہروں کے برابر ہو جائیں“۔
بکھر بار کی ٹوٹی پھوٹی گلیاں ٗ ننگ دھڑنگ بچے ٗ شکستہ گھر۔ دوست محمد موچی ٗ رمضان قصائی ٗ علی اصغر ترکھان اور بہت سے اور اچھے لوگ۔ بکھر بار کسی ایک گاؤں کا نام نہیں۔ پاکستان کا ہر گاؤں بکھر بار ہے۔ کاش ہم اپنے اپنے بکھر بار کے غریبوں کو گلے لگا سکیں۔ عزت‘ آبرو‘ بھائی چارہ…… ان کا بھی تو کچھ حصہ ہے۔میں نے دوست محمد سے ہاتھ ملایا اور گاڑی میں بیٹھنے لگا۔ بکھر بار کی یہ حبس آلود شام ایک پھانس کی طرح میرے سینے میں چبھ گئی۔ ”ایک موچی اور وہ بھی بکھر بار کا۔ خدا کسی کو اس مجبوری کا شکار نہ کرے“۔ دوست محمد کی یہ صدا سارا راستہ میرا پیچھا کرتی رہی۔