24 May

Liyari Ka Kiran School-لیاری کا کرن سکول

لیاری‘خوف کی علامت ہے۔ جرم‘ مافیا‘ بدامنی‘ قتل و غارت۔ لوگ یہاں جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ لیکن لیاری کی ایک پہچان اور بھی ہے۔ اس پہچان کا نام کرن سکول ہے۔
کرن سکول کے بارے میں کچھ لکھنا بے حد مشکل ہے۔ لفظ ایک خاص حد تک ساتھ دیتے ہیں‘ پھر پیچھے رہ جاتے ہیں۔یہ جگہ لفظوں سے ماور اہے۔ سکول میں عام طور پر صرف استاد ہوتا ہے لیکن یہاں استاد کے ساتھ ساتھ ایک عظیم ماں بھی رہتی ہے۔ ماں اور استاد ایک قالب میں ڈھل جائیں تو کرن سکول وجود میں آتا ہے۔ ماں کی تما م محبت اور استاد کی ساری توجہ۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسا سکول پاکستان تو کیا پوری دنیا میں نہیں۔ یہ سکول نہ ایکڑوں پہ مشتمل ہے اور نہ ہی اس کے بیسیوں کمرے ہیں۔ ایک چھوٹی سی گلی اور اس گلی کے عین درمیان ایک زینہ در زینہ عمارت جس میں پانچ یا سات کمرے ہوں گے۔ ایک سو کے لگ بھگ بچے اور تعلیم کا ایک انوکھا انداز۔ جس ماں کاذکر ہوا اس کا نام سبینہ کھتری ہے۔ اس سکول کی بانی‘ اس کی روح رواں۔ یہ سکول اس کی زندگی کا حاصل ہے۔معجزۂ فن‘ خون ِ جگر‘ خونِ دل۔
سبینہ نے لیاری کے ان بچوں کو پڑھانا شروع کیا تو ا س نتیجے پہ پہنچی کہ”ان پڑھ ماں کے بچے پیچھے رہ جاتے ہیں۔جب تک ماں تعلیم یافتہ نہ ہو بچے آگے نہیں بڑھ سکتے“۔ اس نے ایک انوکھا فیصلہ کیا ”میں ان بچوں کو پڑھاؤں گی جن کی مائیں بھی سکول میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوں“۔ اس معیار پہ بھلا کون پورا اترے۔ بہت شور مچا۔پہلے انکار‘ تکرار اور پھر تذبذب۔ لیکن وہ کوئی اور نہیں سبینہ ہے‘ اس کا عزم پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہرا ہے۔ بالآخرسارا انکار دیوانگی کے سیل ِ رواں میں بہہ گیا۔ بچوں کے ساتھ ماؤں کو بھی داخل ہونا پڑا۔سبینہ کا کام دہرا ہوگیا۔ماؤں اور بچوں دونوں کو انگریزی پڑھانا اور پھر ان کے لیے ریاضی کے الجھے ہوئے سوال حل کرنا……لیکن محنت اور دردِ دل سے جو کام بھی کیا جائے برگ و بارلاتا ہے۔ بچے بھی پڑھ گئے اور مائیں بھی۔ ساتھ ہی پورا خاندان بھی۔ جب ان بچوں نے پانچ جماعتیں پڑھ لیں تو انھیں کراچی کے بہترین سکولوں میں داخل کروادیا گیا۔ ان سکولوں کی فیس دس ہزار سے کم نہیں۔ یہ فیس کہاں سے آئے گی۔ اس سوال نے بہت سے لوگوں کو پریشان کردیا۔ لیکن سبینہ کا کہنا تھا کہ ”یہ نہیں ہوسکتا کہ میرا اپنا بچہ پبلک سکول میں جائے اورجس بچے کو میں نے اپنایا وہ خستہ حال عمارت کی ویرانی میں گم ہونے لگے“۔یہ بچے اگر پڑھیں گے تو کراچی گرامرجیسے سکولوں میں۔
دس سال بیت گئے۔ سبینہ کی دیوانگی کا آج بھی وہی عالم ہے۔ اسے اپنے میاں صدیق کھتری اور بیٹے وقاص کھتری کی بھر پور مدد حاصل ہے۔یہ کراچی کا ایک نام ور گھرانہ ہے جس نے زندگی کا آغاز لیاری سے کیا اور اب اسے چھوڑ کر کہیں اور جا بسا لیکن لیاری کا قرض اتارنا فرض سمجھتا ہے۔ سبینہ ہر روز نوبجے سے سات بجے تک لیاری میں رہتی ہے۔نہ کوئی خوف‘ نہ ڈر۔ ایک بار لیاری کے ایک داد ا نے اس کے بار ے میں سنا تو بہت سیخ پا ہوا۔ بندوقوں سے مسلح ہو کر سکول پہنچا لیکن سبینہ کا سامنا ہوا تو ٹھہر نہ سکا‘ سرجھکا کے واپس لوٹ آیا۔وہ جو کسی نے کہا‘ سچ کے سامنے کون ٹھہر سکا ہے۔ اس کے بعد کسی کو جرات نہ ہوئی کہ ادھر کا رخ کرتا۔ظلم اسی وقت تک ظلم ہے جب تک اسے للکارا نہ جائے۔
کرن سکول سے اب تک سو بچے پرائمری پاس کرکے بہترین سکولوں میں جاچکے ہیں لیکن ہر سال پہلی جماعت میں نئے بچے آجاتے ہیں۔مجھے دو بار ان بچوں کو ملنے کا اتفاق ہوا۔میرے ساتھ میرا دوست اور اخوت کا ساتھی نذیر تونیو بھی تھا اور میری بیگم بھی۔ ہم ڈرتے ڈرتے لیا ری پہنچے لیکن ان بچوں کے اعتماد نے ہمیں حیران کردیا۔ ان کے چہروں پہ ذہانت کھلی ہوئی تھی۔ مہذب‘ مودب‘ باسلیقہ۔ ان کو تعلیم ہی نہیں تربیت بھی ملی ہے۔ سبینہ نے ان کی رگوں میں اپنی ممتا کوٹ کوٹ کے بھر دی ہے۔ کیا آپ نے ایسی ماں دیکھی ہے جس نے سو بچوں کی اس طرح تربیت کی ہو۔جو ہر سال بیسیوں نئے بچوں کو اپنی آغوش میں لیتی ہو۔ جو ان سے ملنے کے لیے ہرروز آگ کا دریا عبور کرتی ہو۔ کیا یہ بچے خوش قسمت نہیں کہ ان کے خون کی ہر بوند میں سبینہ کا پیار شامل ہے۔ یہ مستقبل کے معمار ہیں۔ یہ قائد ہیں۔ یہ اپنے لیے بھی سوچتے ہیں اور لیاری کے لیے بھی۔ایک روز ان کے خواب افق پہ پھیل جائیں گے۔ لیاری‘ کراچی‘ پاکستان۔میرے وطن کے مقدر میں صرف اندھیرے نہیں‘ روشنی بھی ہے۔لیاری اب میرے لیے خوف کی علامت نہیں۔ یہاں کا کرن سکول میری امیدوں کے جہان میں روشنی کرتا ہے۔ہرروز‘ ہر لمحہ۔