042-111-(GIVING) 448464
amjadsaqib1@gmail.com
0
Register Login
No apps configured. Please contact your administrator.

Login with your site account

No apps configured. Please contact your administrator.

Lost your password?

Not a member yet? Register now

AmjadSaqib.com AmjadSaqib.com
  • Home
  • About
  • Publications
  • Articles
    • Daily Dunya
    • Daily Nai Baat
    • Flood Campaigns
  • Media
    • Media
  • Contact us
Back
  • Home
  • About
  • Publications
  • Articles
    • Daily Dunya
    • Daily Nai Baat
    • Flood Campaigns
  • Media
    • Media
  • Contact us
  • Home
  • Blog
  • Articles
  • Mall Ke Ghulam-مال کے غلام

Articles

27 Jul

Mall Ke Ghulam-مال کے غلام

  • By Rehan Shabbir Khan
  • In Articles, Daily Nai Baat
  • 0 comment

مالک وہ ہوتا ہے جو اپنا مال بانٹ دیتا ہے اور غلام وہ ہے جو اسے سنبھال کے رکھتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتا لیکن اس بات پر غور کرنے سے پہلے ایک واقعہ۔
مدینہ منورہ اس روز گہری اور پُر سکون خاموشی میں ڈوباہوا تھا۔اچانک لوگوں کوشور سنائی دیا۔یہ ایک لمبے چوڑے قافلے کی خبرتھی۔ لوگوں نے پوچھاآج مدینہ میں کیا ہوگیا ہے؟ جواب ملا یہ عبدالرحمن بن عوف ؓ کا قافلہ ہے جو شام سے مال تجارت لے کر آیا ہے۔کیاقافلہ اتنا بڑا ہے؟ لوگوں نے پوچھا: ہاں! یہ قافلہ سات سو اونٹوں پر مشتمل ہے اور یہ سارا سامان مدینہ کے غربا میں تقسیم ہو گا! حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ۔ اپنے عہد میں جزیرہ نمائے عرب کے سب سے مالدار تاجر…… آپ ؓ کہا کرتے تھے کہ ”میں اگر پتھر اٹھاتا ہوں تو اس کے نیچے سونا اور چاندی پاتا ہوں“۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے اپنی زندگی کا آغاز غربت سے کیا۔ جب مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے اور مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات قائم ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے جناب عبدالرحمن بن عوف ؓ کو حضرت سعد بن ربیع ؓ کا بھائی بنایا۔ ”سعد نے عبدالرحمن سے کہا: بھائی! میں مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں، میرا آدھا مال لے لو، اور میری دو بیویاں ہیں جو تمہیں پسند آئے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں تم اس سے شادی کرلو“۔
عبدالرحمن بن عوفؓ نے ان سے کہا:”اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و عیال اور مال میں برکت فرمائے! مجھے تم صرف بازار کی راہ دکھا دو۔“ پھر آپ ؓ بازار گئے، کچھ مال خرید کر فروخت کیا اور نفع کما لیا۔آپ ؓ نے ایک روز اپنے بارے میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ”اے ابن عوف! تم دولت مند ہو،تم سست روی سے جنت میں داخل ہو گے۔ لہٰذا اللہ کو قرض دو،تمہارے قدم کھول دیے جائیں گے“ جس روز سے آپ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ نصیحت بھرے کلمات سنے، آپ ؓ اپنے رب کو قرض حسنہ دینے لگے اور اللہ بھی اس کو کئی گنا بڑھاتا رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے غزوہ تبوک کا ارادہ فرمایا تو صحابہ کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ صدقہ و انفاق کرنے والے اس اولین گروہ میں شامل تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے عطیہ کی وصولی کے بعد جناب عبدالرحمن ؓ سے پوچھا: عبدالرحمن ؓ! کیا اہل خانہ کیلئے بھی کچھ چھوڑا ہے؟ جناب عبدالرحمن ؓ نے جواب دیا:یا رسول اللہ ﷺ …… میں نے ان کے پاس وہ اجر چھوڑا ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے وعدہ فرمایا ہے۔
اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ ؓ نے پچاس ہزار دینار فی سبیل اللہ تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ اسلام میں سب سے بلند مرتبہ لوگ وہ سمجھے جاتے ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ انہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے زندہ اصحاب میں سے ہر ایک کو چار ہزار دینار دینے کی بھی وصیت کی۔ اپنے ورثاء کے لیے کئی ہزار اونٹ، گھوڑے اور بکریاں ترکہ میں چھوڑ گئے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ؓ ہمیشہ اس دولت سے خائف رہے۔ ایک روز آپ ؓ کے سامنے افطاری کا کھانا رکھا گیا، کھانے پر آپ ؓ کی نظر پڑی تو آپ ؓ رو پڑے اور کہا: ”مصعب بن عمیر شہید ہوئے۔ انہیں ایک چادر میں کفنایا گیا، اگر ان کا سرڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور اگر پاؤں ڈھانپا جاتا تو سرننگا ہو جاتا۔حمزہ ؓ شہید ہوئے۔ ان کے کفن کیلئے ایک چادر کے سوا کچھ نہ ملا۔ پھر دنیا ہمارے سامنے خوب پھیلا دی گئی اور ہمیں اس سے بہت کچھ عطا ہوا۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں ہماری نیکی کا بدلہ ہمیں یہاں ہی نہ دیدیا جائے“۔ جناب عمر فاروقؓ کے بعد نئے خلیفہ کا انتخاب ہونے لگا توکچھ جید صحابہؓ جناب ابن عوفؓ کی طرف اشارے کرنے لگے۔ اس موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا:”اللہ کی قسم! اگر چھری لے کر میرے حلق پر رکھ دی جائے اور پھر اسے ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دیا جائے تو یہ چیز مجھے خلافت سے زیادہ پسند ہے“۔کیا کسی اہلِ اقتدار نے اس بات پہ غور کیا۔
یہ ہے اسلام کے ایک مالدار اور دولت مند شخص کی کہانی۔ کوئی ہے جو عبدالرحمن بن عوف کی اس روایت پہ چل سکے۔ کوئی بادشاہ‘ سلطان‘ شیخ‘ کوئی وزیر ِ اعظم‘ کوئی صدر‘ کوئی گورنر‘ کوئی مشیر۔حضرت ابن عوفؓ اپنے مال کے غلام نہیں مالک تھے یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتا۔ مالک وہ ہوتا ہے جو اپنا مال بانٹ دیتا ہے اور غلام وہ ہے جو اسے سنبھال کے رکھتا ہے۔

  • Share:
Rehan Shabbir Khan

You may also like

Khas hai Tarkeeb mein Qaum e Rasool e Hashmi-خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولؐ ہاشمی

  • October 3, 2019
  • by Rehan Shabbir Khan
  • in Articles
محاذ ِ جنگ پر بیٹھا ہوا سپاہی لڑتا ہے یا قوم جنگ کرتی ہے؟ بھارت کا مقابلہ کرنے سے...
Tera Lutiya Sheher Bhanbhor-تیرا لٹیا شہر بھنبھور
October 3, 2019
Dr. Saeed Akhtar-ڈاکٹر سعید اختر
October 3, 2019
Kia Ghurbat Khatam Ho Sakti hai?-کیا غربت ختم ہوسکتی ہے؟
May 29, 2017

Leave A Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Posts

LoveinAsia understand the welfare out of Western people just who seeking american like or an interviewing the latest soulmate
28Jan,2023
Occupational segregation can also help prevent substitution ranging from some other groups, in this case involving the genders
28Jan,2023
Together detailed expertise in the brand new posting world, Caroline Sheldon centered her very own institution three decades in the past
28Jan,2023

Get in touch

042-111-GIVING (448464)

amjadsaqib1@gmail.com

19 Civic Center, Sector A2, Township, Lahore, Pakistan

HOME

  • Dr Amjad Saqib
  • Contact us
  • Articles
  • Book Shop
  • Privacy Policy
  • My Account

Social Media

  • Facebook
  • Twitter
  • Linkedin

Social Media

  • Instagram
  • Youtube

Powered by BSource.

  • Exchanges & Refunds
  • Terms & Conditions
  • Contact us