01 May

Mandar Aur Dharam Shala Per Hamla-مندر اور دھرم شالہ پر حملہ

محبت‘ ایثار‘ رواداری‘ عفوو درگزر……کبھی یہ ہمارا طرزِ عمل تھا۔ اوڑھنا بچھونا۔ اب تو یہ ایک کہانی ہے۔ مجھے یہ سب کچھ‘ چند خبریں پڑھ کریاد آیا اور پھر یہ یاد آنسوؤں کی ایک لڑی میں ڈھل گئی۔
”لاڑکانہ میں مندروں کی بے حرمتی اور ایک دھرم شالہ کو نذرِ آتش کرنے کے بعد سندھ میں ہولی کی تقریبات منسوخ کردی گئیں۔ ہندو برادری نے سندھ کے اکثر اضلاع میں اس واقعے کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ حیدر آباد پریس کلب کے سامنے ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ ہندو برادری ہم آہنگی اور امن پر یقین رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ صوفیاء کرام کی زمین ہے اور محبت‘رواداری اور انسانیت ہی اسی خطے کی پہچان ہے۔ انتہا پسند عوامل کی جانب سے عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کی بدولت سندھ کی شناخت مجروح ہوئی ہے۔کراچی پریس کلب کے سامنے ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ ہندو برادری اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہی ہے۔ لاڑکانہ میں ہولی کے تہوار سے صرف ایک دن قبل ہونے والے اس افسوناک واقعے کے بعد مقامی ہندو اپنے گھروں تک محدود ہوکر رہ گئے اور سندھ بھر میں ممکنہ حملوں کے خطرے کے پیش ِ نظر ہولی نہیں کھیلی گئی“۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سندھ میں اس نوعیت کے واقعات سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہیں اور گذشتہ دو تین برسوں سے خاص طور پر ہولی کی تہوار پر اس طرح کا کوئی واقعہ ضرور رونما ہوتا ہے۔”ہولی کے تہوار کی خوب صورتی یہی ہے کہ اسے سب مل کرمناتے ہیں۔ اس تہوار کو منانے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دوری ختم ہورہی تھی اور ملک میں رواداری اور امن کا کلچر فروغ پا رہا تھا‘ تاہم ان واقعات کے باعث بداعتمادی کی فضا پیدا ہورہی ہے“۔سندھ سے نکلیں اور خیبر پختونخواہ کی خبر لیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق”خیبر پختونخوامیں رہنے والی مذہبی اقلیتیں بھی مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ انھیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔ بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور امن ِعامہ کی خراب صورت حال کے باعث نہ تو ان کی جان محفوظ ہے اور نہ ہی جائداد۔ کیا یہ لوگ پاکستان کے آئینی شہر ی نہیں۔”خیبر پختونخوا میں غیر مسلموں کے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں پریشان کن اضافہ ہورہا ہے۔ ماضی قریب میں سکھ سردار باباپرم سنگھ کو اغوا کرکے قتل کردیاگیا۔ بابا پرم جیت سنگھ حکیم تھے اور پاکستان میں رہنے والی سکھ برادری کے لیے بہت محترم تھے۔ اسی طرح بابا بھگوان سنگھ کو ڈسٹرکٹ چارسدہ میں قتل کردیا گیا۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ بن گئے ہیں جس کے باعث خیبر پختونخواہ میں رہنے والی سکھ کمیونٹی خود کو انتہائی غیر محفوظ محسوس کرتی ہے۔ خیبر پختونخواہ میں رہنے والے ہندوؤں کی صورت حال بھی بہت زیادہ مختلف نہیں۔ اس سے پہلے ہم یہ سنتے تھے کہ صوبہ سندھ میں نوجوان ہندو لڑکیوں کو اغواء کے بعد زبردستی تبدیلی مذہب پر مجبور کر دیا جاتا ہے لیکن اب خیبر پختونخوا میں بھی ہندو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو گھروں تک محدود کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں“۔ایسے ہی واقعات پنجاب اور بلوچستان میں بھی رونما ہوتے ہیں۔ تعصب کی ایک آگ سی ہے جو پھیلتی جارہی ہے۔ ہر طرف‘ ہر سو۔ راکھ ہی راکھ۔ اقلیتوں کے نمائندہ ایک جریدے نے کہا”اس نوعیت کے واقعات کے تسلسل نے اقلیتوں کو یہ سوچنے پہ مجبور کردیا ہے کہ ریاست کا بنیادی ڈھانچا ہمارے حق میں نہیں۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں ایسا مواد شامل ہوچکا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی ہندوؤں کو نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور مسیحی برادری کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ ملک کی مذہبی اقلیتوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کی تشکیل میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ کام کریں گی۔وہ آج بھی اس پاک سرزمین کو اپنی جنم بھومی سمجھتے ہیں اور اس کی ترقی اور خوشحالی کے لیے تن من اور دھن کی بازی لگانے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم انہیں حکومتی بے تو جہگی کا سامنا ہے اور وہ اسی انتظار میں ہیں کہ کب ریاست‘ حکومت مقننہ اور عدلیہ جیسے ادارے اپنی ذمے داریاں پوری کرتے ہوئے حالات میں بہتری لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے“۔
مجھے ایک بڑے شخص کی یہ بات اکثر یاد آتی ہے……”پاکستان کا وجود کیوں کر ممکن ہوا۔ شاید اس اندیشے کی بنا پر کہ ہندو‘ مسلمانوں کے وجود کو مٹانے پہ تلے ہوئے تھے۔لیکن پاکستان بننے کے بعد وہی اقلیت جب اکثریت میں تبدیل ہوئی تو اس نے بھی وہی ڈھنگ اپنا لیے۔ وہی زعم‘ وہی غرور‘ وہی تعصب اور تنگ نظری……“محبت‘ ایثار‘ رواداری‘ عفوو درگزر……کبھی یہ ہمارا طرزِ عمل تھا۔ کبھی یہ ہمارا طرۂ امتیاز تھا۔اوڑھنا بچھونا۔ آئیے ان روایات کو پھر سے زندہ کریں۔وہی ساقی‘ وہی جام‘ وہی آبِ بقائے دوام!