06 Mar

Mujhe Rasta Mil Gia-مجھے راستہ مل گیا

آٹھ مارچعورتوں کے حقوق کا عالمی دن ہے۔
یہ دن عورتوں کی ہمت کے اعتراف کا دن بھی ہے۔ عورت جو ہر معاشرے میں غربت کی صلیب پہ لٹکتی رہی۔ ہر طرح کے ظلم کا شکار بنتی رہی۔ آنسو‘ آہیں اور رنج۔ہمارے معاشرے میں تو عورت اور غربت کا تعلق اور بھی گہرا ہے۔غربت اگر اختیار سے محرومی کا نام ہے تویہاں اس سے بڑھ کر اور کوئی غریب نہیں۔ جب تک وہ والدین کے گھر میں رہتی ہے اس کی قسمت کا فیصلہ باپ اور بھائی کے پاس ہوتا ہے۔ جب وہ خاوند کے گھر آتی ہے تو یہ اختیار بھی اس کے خاوند کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ بھوک اور جہالت کا سب سے زیادہ شکار وہی بنتی ہے۔ غم کا آتش کدہ اسے ہر روز جلا تا ہے۔ اگر گھر میں کسی ایک شخص کو بھوکا رہنا پڑے‘ کسی ایک کو جہالت کی چتا میں جلنا پڑے‘ کسی ایک کو دوا سے محروم ہونا پڑے تو وہ عورت ہی ہوتی ہے۔ غریب ہونا بہت بڑا دکھ ہے لیکن غریب عورت ہونا ناقابل بیان دکھ ہے۔آٹھ مارچ عورتوں کے حقوق کا دن ہے۔ اس دن کے حوالے سے جو کہانی آپ کو سنانی ہے وہ غم سے زیاد ہ بہادری کی کہانی ہے۔اس کہانی سے عزم و ہمت آشکارہوتی ہے۔ یہ کہانی اس امر کا اعلان ہے کہ مشکلات کے کوہِ گراں کو کاٹنے کے لیے خود ہی تیشہ بننا پڑتا ہے۔خوشیاں نخلِ فلک سے ٹوٹ کر نہیں گرتیں خود چننی پڑتی ہیں۔
بشریٰ نامی اس عورت کا تین مرلے کا اپنا گھر تھا۔ جہاں وہ‘ اس کا میاں اور بچے‘ سب مل جل کر رہتے تھے۔خوش و خرم اور کا م ران و کام یاب۔اس کا خاوند سبزی منڈی میں کام کرتا اور دس ٗ پندرہ ہزار ہر مہینے کما لیتا۔ بچے سکول جاتے اور وہ گھر کا کام کاج سنبھالتی۔ اس کا کہنا تھا کہ ان کا شمار محلے کے ”خوش حال“ گھرانوں میں ہوتا تھا۔پھر اچانک ایک روز اس کے میاں پہ فالج کا حملہ ہوا۔ فالج کے بعد اس کا نچلا دھڑ مکمل بے کار ہوگیا۔ نہ وہ چل پھر سکتا نہ اٹھ سکتا تھا۔ گھر میں جو کچھ تھا‘ علاج پہ لگ گیا۔ تھوڑا بہت زیور‘ ٹی وی اور گھریلو سامان۔ صرف دوکمروں کا مکان باقی رہ گیا۔ کوئی رشتے دار ساتھ دینے کے قابل نہ تھا۔ وہ خود بھی پڑھی لکھی نہ تھی کہ کہیں نوکری کر سکتی۔ بہت سوچا ٗ بھاگ دوڑ بھی کی لیکن کوئی بات نہ بنی۔ کھانا ٗ پینا ٗ خاوند کی ادویات‘ گھر کا بل۔ وہ کہاں جائے ٗ کس کے دَر پہ دستک دے۔ بے بسی اور محرومی نے اسے دکھ اور درد کی تصویر بنادیا۔ اسی کش مکش میں اس نے ایک مالی ادارے سے رابطہ کیا اور پندرہ ہزار کے قرضے کی درخواست دے دی۔پندرہ ہزار کا قرضہ ٗ جس میں سے آٹھ ہزار کی ریڑھی اور سات ہزار کی سبزی ٗ پھل اور ترازو۔ یہ سب کچھ اسے سبزی منڈی سے مل گیا۔ اب وہ ہر روز منڈی سے کچھ سبزی‘ کچھ پھل لاتی‘ انھیں ریڑھی پہ رکھتی اور پھر اپنے خاوند کو ریڑھی پہ سوار کر کے ریڑھی دھکیلتے ہوئے گھر کے پاس واقع بازار میں لے جاتی۔ باقی کام خاوند کرتا۔ اس کا نچلا دھڑ معذور تھا تو کیا ہوا ٗ ہاتھ تو سلامت تھے۔ وہ ریڑھی پہ بیٹھے بیٹھے سبزی اور پھل بیچتا۔ سہ پہر تک ریڑھی خالی ہو جاتی۔ بشریٰ واپس آکر ریڑھی دھکیلتی ہوئی گھر لے جاتی۔ ہر روز پانچ سے سات سو روپے بچنے لگے۔ اقبال ؒ نے یونہی تو نہیں کہا……”ہم خود تراشتے ہیں منازل کے را ہ و سنگ“۔ دو ٗ تین ماہ کے اندر ہی سارے معاملات بہتری کی طرف چل پڑے۔ بچے پھر سے سکول پہنچ گئے۔ ادویات بھی مل گئیں۔ گھر کا خرچہ بھی نکلنے لگا۔ بشریٰ کہتی ہے کہ وہ ہر روز جب معذور خاوند کو ریڑھی پر بٹھا کر باہر نکلتی ہے تو ایک نیا عزم اس کے ہم رکاب ہوتا ہے۔ شروع شروع میں اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن رفتہ رفتہ حالات معمول پہ آگئے۔ لوگوں نے اس کی حیثیت کو تسلیم کرلیا۔ اسے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ زندگی ہا تھ پھیلانے کا نام نہیں۔محنت کرنے‘آگے بڑھنے کا نام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایک روز میرے خاوند کا علاج بھی ہو جائے گا۔اب مجھے راستہ مل گیا ہے۔“ جب اس نے یہ کہا تواس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ راستہ ایسے ہی لوگوں کو ملتا ہے جو محنت کرنے اور آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ حقوق ِ نسواں کا عالمی دن۔ یہ دن آنسو بہانے کا نہیں بشریٰ کی کہانی دہرانے کا دن ہے۔
زندگی بھیک نہیں‘ زندگی تو محنت ہے۔ زندگی کا راستہ خود ہی تراشنا پڑتا ہے۔آج کے دن ہمیں جہاں انسانی عظمت اور مساوات کی بات کرنی ہے وہیں بشریٰ جیسی بہادر خواتین کی کہانیاں بھی دہرانی ہیں تاکہ یقین کے چراغ روشن ہوسکیں۔ ہم ہر وقت حقوق دینے کی بات کرتے ہیں۔ حقوق دیئے نہیں لیے جاتے ہیں لیکن اس کے لیے بشریٰ جیسا حوصلہ درکار ہے۔