27 Mar

Sardar Bhagat-سرداربھگت سنگھ

وہ لوگ جو کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں‘کیا ہمارے ہیرو نہیں؟کیا ان کی قربا نیاں تاریخ کا حصہ نہیں بن سکتیں۔
بھگت سنگھ نے برصغیر کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کی لیکن آزادی کے بعد اس کا کسی نے تذکرہ نہ کیا۔ نہ کوئی دل اس کے لیے رویا‘نہ کوئی آنکھ اس کی یاد میں اشک بار ہو ئی۔ شاید اس لیے کہ اس کا تعلق ہمارے دین سے نہیں۔اس بات پر یقین رکھنے کے باو جود کہ ظلم کا کو ئی مذہب نہیں ہوتا اورحق بھی مذہب کی تفریق سے بلند ہے‘ ہم اسے اپنا ہیرو نہیں مانتے۔
کسی نے کہا”برطانوی سامراج کے سائے میں پلنے والے گدی نشینوں اور جاگیرداروں کو تو ہم بہت بلند مرتبہ دیتے ہیں لیکن بھگت سنگھ جیسے انسانوں کو یاد کرنا بھی گوارہ نہیں کر تے“۔ آزادی کا یہ متوالا 1907 میں فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہو ا۔ اس کی پیدائش کے وقت اس کا باپ سردار ہر کشن سنگھ انگریزوں کی قید میں تھا۔ بھگت سنگھ کے دادا نے بھی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ اس کے ایک چچا اجیت سنگھ نے ”پگڑی سنبھال جٹا“کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ یہ تحریک پنجاب کے کسانوں کو اپنی خودداری برقرار رکھنے کا درس دیتی۔ یہ درس حکمرانوں کو پسند نہ آیا اور انہوں نے اجیت سنگھ کو سزا کے طور پر کالے پانی بھیج دیا۔ اجیت سنگھ کو وطن کی صبح دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔
حریت کے اسی ماحول میں پرورش پانے والے بھگت سنگھ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ”بنگا“ میں حاصل کی۔ آٹھویں جماعت کے بعد اسے لاہور کے ایک سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ برصغیر میں ان دنوں ظلم اپنے عروج پر تھا۔ آزادی کی اُمنگ پھر بھی لوگوں کو بے قرار رکھتی۔ جلیانوالہ باغ کا واقعہ بھگت سنگھ کے لیے آتش فشاں ثابت ہو ا۔ اس واقعے نے پورے ہندوستان میں نفرت کی آگ بھڑکا دی۔ چند ماہ بعد بھگت سنگھ اپنے کچھ دوستوں کو ساتھ لے کر جلیانوالہ باغ پہنچا اور حریت پسندوں کے خون سے رنگین مٹی کو چوم کرقسم کھا ئی کہ وہ یہ قرض ضرور اُتارے گا۔اس مٹی نے اسے باغی بنا دیا۔ یہ مٹی اس نے اپنے ساتھ لے لی اور پھر ساری عمر اس کے ساتھ رہی۔ اسی دوران اس کی دوستی اس عہد کے دواور انقلابی کرداروں سکھ دیو اور راج گرو سے ہوئی۔سامراج کی شکست ان تینوں کی منزل تھی۔ بھگت سنگھ کو چندر شیکھر آزاد سے ملنے کا موقع بھی ملا۔ ان لوگوں کی صحبت آہستہ آہستہ رنگ لائی اور بھگت سنگھ تعلیم چھوڑ کر انقلابیوں کے جتھے میں شامل ہو گیا۔ اگلے کئی سال وہ پورے ہندوستان میں گھومتا رہا۔ اس کا کام برطانوی ظلم و تشدد کے خلاف لوگوں کو بغاوت پر آمادہ کرنا تھا۔ بھگت سنگھ اپنی جدوجہدپُر امن طریقہ سے بڑھانا چاہتا تھا لیکن حالات اس نہج پر لے آئے کہ اسے ہتھیار اُٹھانا پڑے۔ وہ اور اس کے چند ساتھی بموں سے لیس ہو کر دہلی کے اسمبلی ہال پہنچے اور سخت پہرے کے باوجود وہاں حملہ کر دیا۔ حملہ کے بعد وہ فرار ہوسکتے تھے لیکن انھوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ فرار تو وہ ہو تا ہے جسے جرم پہ ندامت ہو۔ جو حق و صداقت کا علم اٹھا کے چلے وہ فرار نہیں ہوتا۔اس نے ٹھیک کہا تھا۔ غرورِ عشق کا بانکپن جھکنے نہیں دیتا۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیا۔ بھگت سنگھ کو عمر قید کی سزا سنا ئی گئی۔ اسی مقدمہ کے دوران کچھ اور انگریزوں کے قتل کی ذمہ داری بھی بھگت سنگھ پر عائد کر دی گئی اور یوں اس دور کے مشہور مقدمہ ”لاہور سازش کیس“کی کاروائی شروع ہو ئی۔ اکتوبر1930 میں بھگت سنگھ کو موت کا حکم سنا یا گیا۔ بھگت سنگھ نے اس فیصلہ کو سن کر آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ اسکا سینہ اور کشادہ ہو گیا۔ اس بہادر انسان کو مارچ 1931 کی ایک صبح جلاد نے پھا نسی پر چڑھا دیا۔ ایک شمع تھی جو گل ہو گئی۔ اس کی لاش اس کے اہل خانہ کے حوالے کرنے کی بجائے فیروز پور کے قریب دریا ئے ستلج کے کنا رے لے جا کر جلا دی گئی۔ایک انقلابی کی راکھ ہمیشہ کے لیے وطن کے پانیوں میں گھل گئی۔
ان ساری باتوں میں شاید کو ئی تاریخی سقم ہو لیکن اس امر سے کسی کو انکار نہیں کہ بھگت سنگھ پنجاب کا ایک بہادر سپوت تھا۔اس نے اپنی مرضی سے انقلاب کی راہ کا انتخاب کیا۔وطن کی آزادی اس کا مطمع نظر تھا۔ وہ انسانی مساوات کا دعویدار تھا۔ بہادر، انسان دوست اور باغی۔ ضلع فیصل آباد میں بھگت سنگھ کا گاؤں بنگا ابھی تک موجود ہے لیکن وہاں کے مکین بدل چکے ہیں۔محض چند لوگ ایسے ہیں جو بھگت سنگھ کے نام سے واقف ہوں گے۔انہیں چھوڑ کر پو رے گاؤں میں کو ئی شخص بھی ایسا نہیں جو بھگت سنگھ کی جدوجہد اور قربانی سے آشنا ہو۔ اس بہاد ر سردار کی یاد میں یہا ں کو ئی یادگار تعمیر نہیں ہو ئی۔ شاید اس لیے کہ ہم ہیرو کا تعین انسانیت کی بناء پر نہیں مذہب کی بنا ء پر کر نے لگے ہیں۔
بھگت سنگھ کی تحریروں سے ایک ایسے انقلابی کی تصویر ابھرتی ہے جو بائیں بازو کے نظریات سے متاثر تھا۔ اس نے اپنی جدوجہد کا آغاز ایک قوم پرست کے طور پر کیا اور پھر انسانی سماج کو طبقاتی کشمکش کے آئینے میں دیکھنے لگا۔ بھگت سنگھ ایک اچھا سماج تشکیل دینا چاہتا تھا۔ہم سب یہی چاہتے ہیں۔ بھگت سنگھ نے اس راہ میں اپنی جان قربان کردی۔ ہم یہ نہیں کر پائے۔ کیاان بہادر لوگوں کا ہماری تاریخ میں کوئی مقام نہیں جو آئیڈیلز کے لیے جان کی بازی لگادیں۔
گورکس دل جلے کی ہے یہ میر
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے