06 May

Shama-شمع

جب یہ شخص امریکا کی سرزمین پہ اترا تو اس کے پاس چند ڈالر تھے۔ آج وہ ایک کام یاب شخص ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کام یاب وہ نہیں جس کے پاس دولت ہو‘ کام یاب تو وہ ہے جو دل کا غنی ہو۔ یہ شخص دل کا غنی بھی ہے۔ وہ دولت کو خدا کا انعام سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص اس حالت میں دنیا سے رخصت ہو کہ اس کے خزانے دولت سے بھرے پڑے ہوں تو وہ ایک ناکام شخص ہے۔ کام یابی بانٹ کر جانے میں ہے۔ جو کچھ ملا واپس کر دینے میں ہے۔ امریکا میں نیا کاروبار شروع کرناسب سے مشکل کام ہے۔ اس شخص نے کئی کاروبار کیے اور کام یابی کے بعد فروخت کردیئے۔ پینتالیس سال کی عمر میں وہ غم ِ روزگار کے جھنجٹ سے آزاد ہوگیا۔دولت کا کچھ حصہ بچوں کی تعلیم کے لیے رکھا اور بقیہ ایک ٹرسٹ کی صورت میں خلقِ خدا کے لیے وقف کردیا۔ امریکا میں رجسٹرڈ اس ٹرسٹ کا نام”شمع ٹرسٹ“ ہے۔ شمع ایک استعارہ ہے‘ روشنی کا۔
شمع کی طرح‘شمع ٹرسٹ بھی ایک استعار ہ ہے‘ ایثار کا‘قربانی کا۔ اس شخص کا کہنا ہے کہ میں اپنے بچوں کو دولت دے کر اپاہج نہیں بنانا چاہتا۔امریکا کا ایک اورامیر شخص وارن بفٹ بھی یہی کہتا ہے کہ”میں اگر کم تعلیم کے باوجودیہاں تک پہنچ گیا تو میرے بچے اس قدر تعلیم کے بعد بھی مجھ سے آگے کیوں نہیں نکل سکتے۔ مجھے ان کی صلاحیت پہ اعتماد ہونا چاہیے۔ یہ ناانصافی ہے کہ میں اپنی دولت دو یا تین بچوں کو دے دوں۔مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے‘ بھوک اور غربت میں گھرے ہوئے ہزاروں‘ لاکھوں‘ کروڑوں بچوں کے حصہ کی ساری خوشیاں صرف اپنے بچوں کو دے دوں؟کیا یہ کم نگاہی نہیں“۔اس شخص کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”کائنات میں جو کچھ ہے وہ رب کا ہے اور جو رب کا ہے وہ سب کا ہے۔جو سب کا ہے وہ چند ہاتھوں میں مرتکز کیوں ہوجائے؟ مجھے محبت کرنا اچھا لگتا ہے‘ آنسو بہانا اچھا لگتا ہے۔ اپنی محنت سے کمایا ہوا پیسہ کسی اور کو دینا بھی اچھا لگتا ہے“۔
”میں نے پاکستان میں کاروبار کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کام یاب نہ ہوا۔شاید اس لیے کہ وہاں رشوت دینا پڑتی ہے۔ رشوت‘ محنت اور ترقی کا راستہ بند کردیتی ہے۔ جس قوم کو رشوت کی دیمک لگ جائے وہ آگے نہیں بڑھ سکتی“۔ محبت کرنے والا‘آنسو بہانے والا‘ خدا کی راہ میں دینے والا اور رشوت سے بچنے والا یہ شخص کہتا ہے کہ”آپ میری کہانی بے شک لکھ دیں لیکن میرا نام مت لکھیں۔نام لینے سے برکت نہیں رہتی۔ انا کاعلاج گمنامی ہے۔ بادِ صبا کی طرح خاموشی سے گذر جانا ہی اچھا ہے۔گلشن میں بہار آنے پرباغبان شورنہیں مچاتا۔ کوئی بھی کام ہو‘ چپکے چپکے اچھا لگتا ہے۔ آنسو بہانا‘ خدمت کرنا‘ خدا کی یاد میں محو ہونا۔ جو شور کرتے ہیں وہ اپنے رب سے دور ہو جاتے ہیں“۔
”اشفاق احمد کی باتوں سے مجھے زندگی کو سمجھنے کا موقعہ ملا۔ان کی کتابیں پڑھ کے فہم و فراست کے بند دورازے کھل گئے۔ میرے ان گنت دوست ہیں لیکن دوستوں کے انتخاب میں محتاط رہنا چاہیے۔ یہ انسان کی پہچان بن جاتے ہیں۔میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں سے بھی محبت کرتا ہوں۔ میرے پاس دو پالتو جانور ہیں۔ چاہے کتنی ہی مصروفیت ہو میں انھیں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا ہوں۔ ان کی محبت مجھے عجز و انکسار سکھاتی ہے۔ ایک بار میں نے ایک ہرن شکار کیا۔ زخمی ہرن کی آنکھوں میں بہت بے بسی تھی۔ اچانک مجھے خیال آیا کہیں ایسا تو نہیں کہ دور‘ بہت دور کوئی اس کا منتظر ہے۔ ان بے بس نگاہوں کی حسرت! بندوق میرے ہاتھ سے گر گئی اور میں پسینے میں شرابور ہوگیا۔ بس اس کے بعد آج تک بندوق نہیں اٹھی‘ ہاں اشک ندامت ہیں کہ اب بھی بہتے ہیں۔
وہ شخص چند دن پہلے لاس اینجلس کی بھیڑ میں میرا ہاتھ تھا م کرکہنے لگا ”اگر ہمارے اردگرد کوئی حادثہ ہو تو تین طرح کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ کچھ لوگ یہ کہہ کر خاموشی سے آگے بڑ ھ جاتے ہیں کہ ”یہ ہمارا مسئلہ نہیں“۔ کچھ لوگ ہجوم کو چیرتے ہوئے آگے جاتے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہوا اور پھر تماشا سمجھ کر چہ مگوئیاں کرنے لگتے ہیں۔ بہت کم ایسے ہیں جو لوگوں کو پیچھے ہٹاتے ہیں۔ ایمبولینس بلاتے ہیں‘ زخمیوں کو بٹھا کر ہسپتال لے جاتے ہیں اور جب تک لواحقین نہ پہنچ جائیں اس وقت تک چارپائی سے الگ نہیں ہوتے۔ یہ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ دنیا انھی کی وجہ سے قائم ہے۔ کاش ہمارا شمار ایسے لوگوں میں ہونے لگے“۔ اس نے یہ کہا اور خاموش ہو گیا۔
مجھے لگا یہ شخص جو چند ڈالر لے کر امریکا پہنچا اسی قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے جو حادثہ دیکھ کراپنے کام بھول جاتے ہیں۔ ا یمبولینس بلاتے ہیں‘ زخمیوں کو ہسپتال لے جاتے ہیں اور جب تک مریض اچھا نہ ہو جائے چارپائی سے الگ نہیں ہوتے۔
مجھے اس کا نام لینے کی اجازت نہیں۔خوش بیان‘ خوش زبان‘ خوش فکر‘ خوش نظر لیکن یہ یقین ہے کہ دنیا ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے قائم ہے۔
آئے ہے بے بسی ئ عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب ِ بلا میرے بعد