18 Apr

Sweden-سویڈن

سٹاک ہوم میں ہمارے میزبان کا نام طارق ضمیر تھا۔
سویڈن میں بسنے والے پاکستانی اس کے نام کی مالا جپتے ہیں۔ ”ایسا سفیر“ یہاں پہلے نہیں آیا“۔ بہت سے لوگوں نے یہ بات کہی۔ نقارۂ خلق زبانِ خدا ہوتی ہے۔ طار ق سے میر اتعارف پچیس سال پرانا ہے۔ ہم پہلی بار واشنگٹن میں ملے۔واشنگٹن جو کبھی ابراہیم لنکن کا شہر تھا لیکن اب یہاں ٹرمپ نامی ایک شخص رہتا ہے۔پستیوں کی کوئی حد نہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں امیریکن یونی ورسٹی میں پڑھ رہا تھااور طارق واشنگٹن کے پاکستانی سفارت سے منسلک تھا۔ واشنگٹن کے بعدہماری دوسری ملاقات پانچ سال بعد نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں ہوئی جہاں ہم ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچے۔طارق جنوبی ایشیا کے ممالک کی نمائندگی کررہا تھا اور میں وہاں شعیب سلطان صاحب کی دعوت پہ پہنچا تھا۔ اس سفر کا حاصل”گوتم کے دیس میں“ نامی کتاب ہے۔ میرا پہلا سفر نامہ۔ اگلی ملاقات دس سال بعد کراچی میں ہوئی جب نیپا کراچی نے مجھے اور”فقیرِ عصر“ عبدالستار ایدھی کو حکومت ِ پاکستان کے افسران سے خطاب کی دعوت دی۔ ہمیں وہاں اخوت کی کہانی سنانا تھی۔کچھ اور لوگوں کی طرح طارق کو بھی یہ کہانی اپنی ہی لگی۔بس اس کے بعد وہ جہاں گیا یہ کہانی عام کرنے لگا۔ گویا مواخات کا پیغام اس کے دل میں اتر گیا۔جب اسے علم ہوا کہ ہم ڈنمارک آرہے ہیں تو اس نے کہا آپ سویڈن آئے بغیر واپس نہیں جاسکتے۔ یہ کسی حاکم کا نہیں دوست کا حکم تھا۔ مفر کی گنجائش کیسے نکلتی۔ چوبیس مارچ کو ایک تقریب سٹاک ہوم میں منعقد ہوئی۔ انور مسعود اور امجد اسلام امجد کو لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اتنی پذیرائی کہ ان کی آنکھیں بھی نم ہونے لگیں۔ انور صاحب نے قہقہوں کی ڈور میں غم کے موتی پرو رکھے ہیں۔ قہقہوں کی باز گشت فضاؤں میں بکھر جاتی ہے اور غم کے موتی دل میں اترنے لگتے ہیں۔ اس تقریب میں تین سو سے زائد مہمان موجود تھے۔ تقریروں کا سلسلہ بڑی دیر تک چلتا رہا۔بلجیم سے آئے ہوئے پرویز اقبال نے بڑی زوردار تقریر کی۔تئیس مارچ کے حوالے سے بہت سی باتیں ہوئیں۔ تجدید عہد‘ عزمِ نو طارق ضمیر کا دردجادو سا بکھیر نے لگا۔ اس کی باتیں پاکستان کی باتیں تھیں۔
اخوت یونی ورسٹی کی بات ہوئی تو رکنے نہ پائی۔”تئیس مارچ کو اس سے بڑا خراج ِ عقیدت کیا ہو گا کہ ایک ایسا تعلیمی ادارہ بنے جو فیس سے مبرا ہو“۔”کچھ مائیں زیور بیچ کر بچوں کو پڑھا لیتی ہیں جن ماؤں کے پاس زیور ہی نہ ہوں وہ کیسے پڑھائیں گی“۔ایسی ہی کچھ باتیں۔ تقریب کا اختتام ہو توکچھ لوگوں نے کہا نہیں یہ تو آغاز ہے۔ طارق نے اپنے گھر چند لوگوں کو کھانے کی دعوت بھی دے رکھی تھی۔ دردمند اور مہربان۔ محمود مرزا‘ عارف کسانہ‘تنویر‘ عطیہ‘فرح اور رضوانہ خان۔ عطیہ کے میاں اردو سے نابلد تھے وہ کوشش کرتی رہیں کہ اردو کے ہر لفظ کا ترجمہ ہو سکے۔ ادھر میں سوچتا رہا کہ ”اخوت“ کا انھوں نے کیا ترجمہ کیا ہو گا۔لفظ صرف حروف کا مجموعہ ہی نہیں‘ سوچ بھی تو ہوتے ہیں۔پاکستان کی باتیں سن کے ان کا درد کئی بار آنکھوں تک آیا وہ مگر خود کو دلاسا دیتی رہیں۔ اخوت یونی ورسٹی کے لیے ”سویڈن بلاک“ بنانے کی تجویز سامنے آئی۔ طے ہوا کہ اس مہم کا آغاز اسی گھر سے ہوگا اوراسی سال چودہ اگست کو یوم ِ آزادی کی تقریب پر ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جائے گا۔ ایک اینٹ کی قیمت صرف ایک ہزار روپے ہے۔ پانچ لاکھ اینٹیں بک جائیں تو یونی ورسٹی کا پہلا سنگِ میل طے ہوتا ہے۔ سویڈن کا ہدف تو صرف دس ہزار اینٹیں ہیں۔میں نے اس ستر سالہ عورت کی کہانی سنائی جس نے کہاکہ وہ غریب ہے اور ایک ہزار روپوں کی ایک اینٹ خریدنے کی سکت نہیں رکھتی۔پھر کہنے لگی کیا پانچ سو روپے کی آدھی اینٹ بکتی ہے۔ اس عورت کا یہ سوال کہ کیا ”آدھی اینٹ بھی بکتی ہے“۔ ہر اس شخص کے لیے ہے جو سینے میں دل رکھتا ہے۔
ڈنر ختم ہوا۔طارق نے اپنے گھر میں ہی ٹھہرنے کو کہا۔ ہر طرف گہرا اندھیرا۔ اس اندھیرے نے اردگرد بکھرے حسن کو چھپا رکھا تھا۔صبح اٹھے اور کھڑکی سے باہر جھانکا تومنظر ہی اور تھا۔ ہم گھر میں نہیں چمن میں تھے۔ خوب صورت پہاڑ‘ وسیع وعریض جھیل‘چیر کے درخت اور کلانچیں بھرتے ہوئے ہرن۔بے پرواہ‘ بے خود۔ میں کمرے سے نکلا اور سیڑھیاں اتر کر جھیل کے کنارے تک جاپہنچا۔ وہاں بیٹھے پرندوں کو یہ بات اچھی نہ لگی۔ شور مچانے لگے۔چند دن پہلے تک جھیل پر ایک سفید چادر بچھی تھی۔ اب برف پگھل رہی ہے۔ کچھ ہی روز میں ہر طرف پانی ہوگا۔ نیل گوں‘ نیل گوں۔ چھوٹی چھوٹی بادبانی کشتیاں ہوں گی۔ لوگ سیر کے لیے آئیں گے۔ میں جھیل کے کنارے درختوں اور پہاڑوں کو دیکھنے لگا۔ سویڈن میں ایسی ہزاروں جھیلیں ہیں۔بہت دور‘ پاکستان میں بھی ہیں۔ دریا‘ پہاڑ‘ صحرا اور سمندر۔ اسی پہ اکتفا نہیں میرے وطن میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ شفق‘ دھنک‘ خوشبو اور رنگ۔ بس ایک شوق ِ سفرچاہیے۔ وہ جو کسی نے کہا ؎
اگر ہو جذبہ ئ تعمیر زندہ
تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے
وہ دن دور نہیں جب ہماری ”جھوک“ بھی آباد ہوگی۔ خوب صورت جھیلوں میں بادبانی کشتیاں ہوں گی‘ کوہ پیما شمال کا سفر کریں گے۔ گوادر پہ لنگر انداز قافلے خوشبو کی طرح شہروں میں بکھر جائیں گے۔
ڈنمارک اور سویڈن میں گذرے یہ چار دن اس یقین کو اور گہر ا کرگئے۔جب میں کسی شے پہ یقین کرتا ہوں تو وہ شے مجھے مل جاتی ہے۔مشہور ِ زمانہ کتاب ”الکیمسٹ“ کے مصنف پائیلو کوہلو نے کتنی اچھی بات کہی۔
“When you want something, all the universe conspires in helping you to achieve it.”