24 Oct

Bada o Sagar Kahye Baghir-بادہ و ساغر کہے بغیر

آپ سیاست پہ قلم کیوں نہیں اٹھاتے؟ کئی دوست اکثرو بیشتر یہ بات کہتے ہیں۔پہلے سیاستدانوں کی کچھ تعریف کریں اور پھر انھیں موردِ الزام ٹھہرا دیں۔ آج کل یہی طریقہ کار ہے۔ کچھ لوگ البتہ کہتے ہیں کہ بادہ و ساغر کی یہ کہانی اتنی ضروری نہیں۔ سیاست‘ محبت اور خدمت کے ہزاروں راستوں میں سے ایک راستہ ہے۔ اصل موضوع تو صرف ایک ہی ہے۔ غربت اورافلاس……آج پھر ان ہی کی بات کرتے ہیں جن کی قسمت میں تاریک راہوں میں مارا جانا ہی لکھا ہے۔
ورلڈ بنک کے ایک نمائندے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جنم لینے والا ہر تیسرا بچہ Stunting کا شکار ہے۔بیس کروڑ آبادی والے اس ملک میں ہر سال بیس لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں۔جن میں سے آٹھ لاکھ بچےStunted ہوتے ہیں۔Stuntingبیماری نہیں لیکن بیسیوں بیماریوں کا نکتہ آغازہے۔ Stunted بچے جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ ان میں ذہنی صلاحیتوں کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ ان کے دماغ کے خلیے پوری طرح پرورش نہیں پاتے۔ ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ایک خاص سطح تک پہنچ کر رک جاتی ہے۔ یہ سنگین حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ان کی ہمت جلد جواب دے جاتی ہے۔ان کا قد نہیں بڑھتا۔ ان کا وزن کم رہ جاتا ہے۔یہ تخلیقی خیالات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہوتا ہے۔ موسم کی سختیوں کا مقابلہ نہیں کرپاتے۔عام سی بیماری انھیں معذور بنا دیتی ہے۔ یہ بہت جلد طبعی موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ ان کی شادی ہو تو غالب امکان ہوتا ہے کہ ان کے بچے بھی Stunted ہی ہوں گے۔ ورلڈ بنک کا کہنا ہے کہ جس قوم میں ہر سال ایسے آٹھ لاکھ بچے پیدا ہوں گے اس قوم کی صحت کا اندازہ لگانا بہت مشکل کام نہیں۔ورلڈ بنک کے صدر نے کہا ”ہم بہت جلد ایسے ممالک کو شرمندہ کریں گے جو اپنے بچوں کے مستقبل سے اس قدر بے خبر ہیں“۔ ان کا دلچسپ جملہ دہرائے جانے کے قابل ہے……
“We will name them and shame them”.
Stunted بچے کیوں جنم لیتے ہیں۔ اس المیہ کی وجوہات کیا ہیں۔ماہرین کے مطابق اس کی وجہ زندگی کے پہلے تین سال میں دی جانے والی غذا اور توجہ کی کمی ہے۔ زندگی کے پہلے ایک ہزار دن اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ بچہ کس طرح کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا مالک ہوگا۔ ان ایک ہزار دنوں میں نوماہ کا وہ ابتدائی عرصہ بھی شامل ہے جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔جب اس کے جسمانی اعضاء بن رہے ہوتے ہیں۔ حمل کے نوماہ اور اس کے بعد دو سال کس قدر اہم ہیں شاید ہمیں اس کا اندازہ بھی نہیں۔ بچے کا مستقبل انہی ایام پر منحصر ہے۔ ان ایک ہزار دنوں میں ملنے والی متوازن غذا اور ماں کی جسمانی اور ذہنی صحت۔ بچے کے مستقبل کا انحصار اسی پر ہے۔کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کچھ عرصہ بعد اس کرۂ ارض پر کیسے لوگ آباد ہوں گے۔باہمت‘ بہادر‘ جری‘ طاقت وریا کمزور۔ کیاوہ دکھ درد‘ محرومی اور بیماری کا مقابلہ کرسکیں گے۔ پریشان کر دینے والے ا ن سوالوں کا انحصار بھی اسی بات پر ہے۔
Stuntingکی وجہ صرف غربت نہیں‘ جہالت بھی ہے۔ ناقص دودھ‘ آلودہ پانی اور بیماریوں سے بھرپور خوراک۔ ان اشیاء کے استعمال کے نتیجے میں ہونے والی بیماریاں بچے کی مدافعت ختم کردیتی ہیں اور وہ Stunting کا شکار ہونے لگتا ہے۔ ایک بڑی وجہ پیٹ کی بیماریاں بھی ہیں۔ زچہ اور بچہ پہ توجہ‘ خاندانی منصوبہ بندی اور ابتدائی ایک ہزار ایام میں متوازن غذا۔یہ سب ممکن ہو جائے تو ان بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔اگر ماں کی صحت اچھی ہو اور وہ دو سال تک بچوں کو دودھ پلائے تو Stuntingسے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ایک صحت مند نسل کی پرورش کا یہ آسان راستہ ہمارا دین ہمیں بہت پہلے بتا چکا ہے لیکن یہ جہالت ہے یا مغرب کی اندھا دھند پیروی کہ ہم اس طریقہ کو فراموش کرچکے ہیں۔ ہماری درآمدات کا بڑا حصہ بچوں کے دودھ پر بھی مشتمل ہے جو کسی بھی طرح ماں کی شفقت اور محبت کا نعم البدل نہیں بن سکتا۔
پاکستان کی دھرتی صحت مند جوانوں کے لیے مشہور ہے۔وہ جوان جن کی طاقت کے فسانے ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ کھیتوں کھلیانوں‘ پہاڑوں بیابانوں اور صحراؤں کو روندنے والے یہ جری ……کیا دس بیس پچاس سال بعدیہ صورت بدل نہیں جائے گی۔ ہم کھیل کے میدان میں پیچھے رہتے جارہے ہیں۔ اولمپک اور ایشیائی کھیلوں میں شاید ہی کوئی میڈل ہمارے حصہ میں آتا ہو۔ ہاکی‘ سکواش اور کرکٹ ہمارا طرۂ امتیاز تھیں۔ ان کھیلوں میں اب ہم کہاں ہیں۔ کہاں گئے وہ ماضی کے ہیرو۔ نصیر بُندا‘ شہناز شیخ‘ سمیع اللہ اور فضل محمود یا خان محمد۔ کوئی سائنسدان‘ ریاضی دان‘ کیمیا دان……ان تمام علوم کے ماہر کیا اب جنم نہیں لیں گے کیونکہStunting انسان کی Cognitive ability کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس نقصان کا اندازہ توبہت دنوں بعد ہوگا۔آئیے کچھ پیش بندی کا سوچیں!موضوع تو صرف ایک ہی ہے‘ غربت اور افلاس۔ وسائل کی غیر مساوی تقسیم سے نظر ہٹے تو اہلِ سیاست کا تذکرہ ہو۔