26 Jan

سیلاب 2022ء اورتعمیرِنو۔ ہم نے کیا دیکھا … (45)

یہ مختصر سرگزشت اُن چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
تھر کا یہ علاقہ دو ہزار قبل از مسیح‘ یعنی آج سے چار ہزار سال پہلے سرسبز و شاداب تھا۔ ہندوؤں کی کتاب ریگ ویدا (Rigveda) میں سرسوتی نامی ایک دریا کا ذکر ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہی دریا یہاں آب پاشی کا ذریعہ تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ دریا خشک ہو گیا اور دنیا کا اٹھارہواں اور ایشیا کا تیسرا بڑا صحرا وجود میں آنے لگا۔ دریا خشک کیوں ہوتے ہیں۔ صحرا کیوں بنتے ہیں۔ جب انسان فطرت کے مقاصد سے دور ہو جائے تو یہی ہوتا ہے۔
ہم اس روز کراچی سے علیٰ الصبح چلے اور بدین‘ سجاول‘ ٹھٹھہ‘ مٹھی‘ چھاچھرو سے ہوتے ہوئے تین بجے کے قریب صوبی جوتڑ نامی گاؤں پہنچ گئے۔ گاؤں کے لوگوں نے ہمارا استقبال کیا۔ کیا محبت اور وارفتگی تھی۔ حاکم علی نے اپنے گھر میں انتظام کر رکھا تھا۔ کچھ دیر حال احوال پوچھنے کے بعد ہم گاؤں کے سکول پہنچے جہاں بچوں نے ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ ان کی پر اعتماد گفتگو اور تقریریں دل پر اثر کررہی تھیں۔ اعتماد اور روانی کا اور ہی عالم تھا۔ بچوں نے اقبال کے اشعار اس عمدگی سے پڑھے کہ رشک آنے لگا۔ دور دور تک صحرا اور ایک بچے کا پڑھا ہوا اقبال کا یہ شعر:
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
عشق دی نویں اوں نویں بہار۔ این جے وی کی طالب علم پریہہ فدا نے صوبی جوتڑ کی تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ گاؤں مٹھی کی تحصیل چھاچھرو سے مشرق کی جانب 23کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں کبھی تمام آبادی ہندوؤں پہ مشتمل تھی۔ 1930ء میں صوبہ یا صوبو نامی ایک برہمن نے ایک کنواں کھودا اور یہاں رہنے لگا۔ دو اطراف ریت کے دو بڑے بڑے ٹیلے اور درمیان میں ایک میل طویل میدان جہاں اس معمولی کنویں اور کبھی کبھار ہونے والی بارشوں کی بدولت پانی جمع ہونے لگا۔ درخت اگ آئے۔ ایک چھوٹا سا تالاب بھی بن گیا جہاں سے لوگوں کو سال کا اکثر حصہ پانی مل جاتا۔ 1965ء اور 1971ء کی دو جنگوں کی وجہ سے صوبہ اور اس کے اہلِ خانہ بھارت چلے گئے اور سرحد کے اس پار آباد مسلم آبادی کو اس طرف دھکیل دیا گیا۔ یوں یہ سارے کا سارا گاؤں اچانک مسلمان ہوگیا۔ فضا میں اڑتے ہوئے پرندے جو کسی سرحد کو نہیں مانتے‘ حیرت سے یہ سب کچھ ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
جب یہاں پہلا کنواں کھدا اور یہ جگہ آباد ہوئی تو یہاں بیس کے قریب گھر تھے۔ اب ان کی تعداد چار سو ہوگئی ہے۔ تین پرائمری سکول‘ ایک ڈسپنسری‘ تین مساجد اور پھر ایک روز نذیر تونیو نے اس گاؤں کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا۔ پانی کی فراہمی‘ ایک بڑے سکول کی تعمیر‘ کھیل کا میدان‘ پرندوں اور موروں کے لیے باغ۔ گاؤں کے لوگوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما اور نذیر تونیو کے ساتھ مل کر عہد کیا کہ اسے تھر کا سب سے خوبصورت گاؤں بنائیں گے۔ صحرا میں سب سے مشکل کام درخت اُگانا ہے۔ درخت بھی اُگنے لگے اور باہر سے پرندے بھی لائے گئے۔ کمپیوٹر کی تعلیم اور اساتذہ کی تربیت۔ ایک نیا سکول بھی زیرِ تعمیر ہے۔ ہر گھر کو اپنا سولر یونٹ بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ صفائی کی مہم ہر وقت جاری رہتی ہے۔ لوگوں نے وعدہ کیا کہ کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک کے لفافے خود تلف کریں گے۔ یہ ہے اس گاؤں کی کہانی جہاں کا باسی‘ حاکم علی نامی ایک نو جوان‘ این جے وی سکول کراچی میں ملازم بھرتی ہوا اور پھر اس کی محبت ہم سب کو یہاں لے آئی۔ پریہہ نے اپنی بات مکمل کی۔
صوبہ نامی شخص نے نوے سال پہلے جب یہاں کنواں کھودا تو اسے کیا خبر تھی کہ ایک روز یہ کنواں شمسی ٹیوب ویل بن جائے گا۔ آبادی تین ہزار ہو جائے گی اور حاکم علی کے ساتھ عزیز اللہ‘ مرتضیٰ‘ سخی محمد‘ وسیم سجاد‘ ابراہیم اور قاسم نامی کچھ لوگ گاؤں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کے صدیوں سے بنجر اس مٹی کو سرسبز و شاداب کرنے لگیں گے۔ عشق دی نویں اوں نویں بہار۔ صحرا ہوں یا پہاڑ‘ وادیاں ہوں یا سمندر۔ ہر رنگ عشق کا ہی رنگ ہے۔ رات کو حاکم نے اپنے گھر میں بہترین کھانے کا انتظام کررکھا تھا۔ اردگرد دیہات سے بھی بیسیوں لوگ مدعو تھے۔ جب ایک مقامی فنکار نے تھر کی مشہور گلوکارہ مائی بھاگی‘ جسے ”تھرکی کوئل‘‘ کہتے ہیں‘ کے نغمے سنائے تو ان میں فنا اور بقا کی ساری باتیں گونج رہی تھیں۔
میں اکیلی نیم کے پیڑ کے نیچے کھڑی ہوں
آتے جاتے لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے ہیں
ٹپ ٹپ بارش برس رہی ہے
ہوا ہچکولے کھا رہی ہے
مور اور پپہیے‘ پیار سے آواز دے رہے ہیں
کوئل شور مچا رہی ہے
میں تمہارا پوچھ رہی ہوں‘ اے میرے چھیل چھبیلے
لوگ آ جا رہے ہیں اور مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے ہیں
میرا اونچا‘ماڑی نما گھر‘ جس میں چارپائی پانی کی لہروں کی طرح جھولے کھا رہی ہے
سردیوں کی سرد اور تاروں سے بھری راتیں ہوں اور یہ دلفریب سماں
بس میں ہوں اور تم ہو
جب ہم ملیں تو گزرتے ہوئے لمحے تھم جائیں
میں اکیلی نیم کے پیڑ کے نیچے کھڑی ہوں
گزرتے ہوئے لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہے ہیں
ساس جی‘ تمہارا خوبصورت چھبیلا بیٹا مجھ سے دور کیوں ہے
میں تمہارا پوچھ رہی ہوں‘ میرے شوخ خوبصورت بلما
نیم کے پیڑ کے نیچے
مائی بھاگی کا نغمہ اور اس میں چھپی ہوئی درد کی لہر۔ صوبی جوتڑ میں تاروں بھری خوبصورت رات اور دلکش ہوگئی۔
تھر ایشیا کا تیسرا بڑا صحرا ہے۔ مٹھی‘ چھاچھرو‘ ڈپلو‘ دھالی‘ نگر پار‘ کلوئی اور اسلام کوٹ نامی سات بڑے قصبے۔ سولہ لاکھ آبادی۔ انیس لاکھ مربع کلومیٹر رقبہ۔ دور تک پھیلا ہوا سکوت اور تنہائی۔ ایک چھوٹا سا گاؤں جہاں کئی سو بچے اپنے اساتذہ اور والدین کے ساتھ مل کر ایک نیا خواب دیکھ رہے تھے۔ غربت سے پاک ایسا وطن جہاں ہر شخص کو عزت اور آبرو سے زندہ رہنے کا موقع ملے۔ اس خواب کی تعبیر کب ملے گی؟ یہ خواب حقیقت کب بنے گا؟
مژدۂ خوبیٔ تعبیر ملے گا کہ نہیں
دیکھیے خواب میں دیکھا ہوا کب دیکھتے ہیں