محاذ ِ جنگ پر بیٹھا ہوا سپاہی لڑتا ہے یا قوم جنگ کرتی ہے؟
بھارت کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہمیں اس سوال کاجواب بھی ڈھونڈنا ہے۔ قوم کیا ہے اور کیسے وجود میں آتی ہے؟ کیا ہم بکھرے ہوئے
اس شخص کا نام بہرام ڈی آواری ہے۔ یہ پاکستان کی پارسی کمیونٹی کا سربراہ ہے۔ اس نے اپنی کہانی شروع کی تو متحیر کرنے لگا۔ سچ کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے والد
”اے خدا میری زبان کو تاثیر دے۔میں جو بات کہوں دل میں اتر جائے“۔ ڈاکٹر سعید اختر نے دعا مانگی اور اپنی گفت گو شروع کی۔
احسان الحق نے گفت گو شروع کی تو ایک خاموشی سی طاری ہو گئی۔ لاہور کا ایک خوب صورت ہوٹل‘ تیس سے زیادہ مہمان۔ پروفیسرز‘ مالیاتی امور کے ماہر اور حکومت کے لوگ۔ موضوع وہی پرانا کہ لوگوں کو غربت
نیویارک کا ایک خوب صورت ہوٹل۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر‘ملیحہ لودھی کی آواز ابھری تو خاموشی سی پھیلنے لگی۔
مقرر کو اپنی بات پہ یقین ہو تو فضا بھی ساکت ہو جاتی ہے۔ لفظ خاموش کھڑے ہوجاتے ہیں
اک بلندی پہ بنا خوب صورت گھر۔ شائستگی اور نفاست کا نمونہ۔ کھڑکی سے دیکھیں توباہر نشیب میں‘ دو ر تک‘پھیلا ہو ا شہر۔ یہ لاس اینجلس ہے۔ روشنی‘ قمقمے‘ جھلمل ……جیسے وادی میں جگنوؤں کی کوئی بارات نظر آئے۔کرمکِ
یکم مئی‘ مزدوروں کا عالمی دن۔ یہ تحریر ایک مزدور کے شب و روز کی کہانی ہے۔
بہت عرصہ پہلے ایک بار چند پولیس افسران نے مقدمہ قتل میں نامزد ایک ملزم کے گھر تلاشی لینا چاہی تو جواب ملا
حضوری باغ میں منعقد ہونے والی یہ تقریب کئی اعتبار سے منفر د تھی۔
بہار کی اولین شاموں میں سے ایک شام۔ ہلکی سی خنکی اور مدھر کرنے والی موسیقی۔ سامنے شاہی قلعے کا مہیب دروازہ جسے کھولیں تو مغلیہ
سٹاک ہوم میں ہمارے میزبان کا نام طارق ضمیر تھا۔
سویڈن میں بسنے والے پاکستانی اس کے نام کی مالا جپتے ہیں۔ ”ایسا سفیر“ یہاں پہلے نہیں آیا“۔ بہت سے لوگوں نے یہ بات کہی۔ نقارۂ خلق زبانِ خدا ہوتی