Akhuwat ka Safar

Akhuwat - A Journey

اخوت کا سفر

اخوت کا سفرایک منفرد سفر نامہ ہے۔ اس میں سب   کچھ سمٹ آیا ہے۔ ماضی ‘ حال اور مستقبل۔۔۔ گزشتہ بارہ سال نہیں‘ پندرہ سو سال کی کہانی اور آنے والے کئی سالوں کا منظر۔۔۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اس سفر کے امام ہیں۔ آیئے ہم سب ان کے متقدی بن جائیں۔۔۔ آیئے باآوازبلند کہیں‘ پیچھے اس اما م کے اللہ اکبر

مجیب الرحمن شامی

———————–

یہ کتاب زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب کا شاہکار ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اس کی ادبی حیثیت کی داد دوں یا اس میں پوشیدہ فکر ونظر کی گہرائی کی۔۔۔

شعیب بن عزیز

———————–

۔”اخوت کا سفر”اردو سفر ناموں کی رنگارنگ دنیا میں ایک نادر اضافہ ہے۔۔۔ مصنف کے تخلیقی اور ادبی اسلوب نے اس کتاب کو دوامی معنویت سے ہمکنار کردیا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید


English Translation by the name of “Akhuwat – A Journey” is also available for English reading audiences.

Mauloo Musali

مولو مصّلی

یہ کتاب دردِ دل کی کہانی ہے۔ ان لوگوں کی کہانی جو پوری نہیں آدھی روٹی کھاتے ہیں یا کبھی کبھار انھیں آدھی روٹی بھی نہیں ملتی۔ کوئی ہے جو انھیں محبت کی نظر سے دیکھے۔ دُھپ سڑی‘ کچراکنڈی‘ موچی پورہ‘ مچھر کالونی‘ گھسیٹ پورہ ‘ گندا نالہ ‘ ڈبن پورہ‘ ککڑی محلہ ‘ بُھک پورہ ۔ اکثر لوگوں نے یہ نام بھی نہیں سنے ہوں گے۔ یہ ان بستیوں کے  نام ہیں جہاں یہ لوگ رہتے ہیں۔

Kamyab Log

کامیاب لوگ

یہ ایک غیرمعمولی کتاب ہے۔ا س لیے نہیں کہ یہ غیر معمولی افراد کی کہانی ہے بلکہ اس لیے کہ اس میں وہ غیر معمولی پیغام ہے جو آپ کو کام یابی کی راہ دکھا سکتا ہے۔ ہر اس نوجوان کو جو کام یاب ہونا چاہتا ہے‘ اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہیے۔غربت سے نکل کر دولت اور گمنامی سے نکل کر شہرت تک کیسے پہنچا جائے۔ یہ سب کچھ اس کتاب میں درج ہے۔

چنیوٹ کے تیس ارب پتی گھرانوں کی یہ کہانی جہاں آمادۂ سفر کرتی ہے وہیں کام یابی کے اصولوں کو بے نقاب کرکے زادِ راہ بھی فراہم کرتی ہے۔ ان کہانیوں کے پسِ منظر میں مجھے ایک عظیم پاکستان تعمیر ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

Char Aadmi

چار آدمی

اس کتاب کا نام ’’چار آدمی‘‘ ہے۔ یہ ڈاکٹر امجد ثاقب کا انکسار ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب کو چار آدمیوں کے نام معنون کر دیا۔ اگر یہ کتاب میں لکھتا اور اس کا مرکزی کردار ڈاکٹر امجد ثاقب ہوتے تو میں شاید اس کتاب کا نام ’’چار آدمی ‘‘ کی بجائے ’’ہزار آدمی‘‘ رکھتا اور یہ ہزار آدمی صرف ایک آدمی ہوتا اور وہ ڈاکٹر امجد ثاقب ہوتا۔ اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو یہ آدمی اپنے ہمہ جہت کاموں کے تناظر میں ہزار سے بھی بڑھ کرہے۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہمارے خواب مکہ مدینہ کے ہیں اور عملی زندگی میں ہم کوفہ کے باسی ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب وہ شخص ہے جس کا خواب اور عمل ایک جیسا ہے۔ اس کے آئیڈیل اور وہ خود ایک دوسرے میں اس طرح گندھے ہوئے ہیں کہ تفریق مشکل ہے۔

Gotam Ke Dais Main

گوتم کے دیس میں

اس سفر نامے میں بے شمار معنوی خوبیاں ہیں۔ سفر کی نیر نگیاں‘ تاریخ کے دھارے‘ فلسفے کا ذائقہ‘ تہذیبی ‘ سماجی ‘ تاریخی اور جغرافیائی مطالعہ۔ اس سارے سیاسی اور سماجی پسِ منظر میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ انھیں ایک روایتی سفر نامہ نگار سے علیحدہ اور منفرد تشخص دینے کے لیے کافی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ماضی کے مناظر میں حال کی وہ رنگارنگی اور دل کشی پیدا کردی ہے بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ یوں لگتا ہے انھوں نے مہاتما بدھ‘ اشوک اعظم ‘ مہابھارت اور تاریخ کے دیگر کتنے کرداروں اور واقعات کو باطن کی آنکھ سے دیکھا ہے۔ یہ سفر نامہ سفرناموں سے بڑھ کر اپنے اندر ایک خالص ادبی شہہ پارہ کا حسن رکھتا ہے۔

Sher-e-Lab-e-Darya

شہرلب دریا

اس عہد میں جب کہ ملک ایک بستی اور دنیا ایک بڑے شہر کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے دریائے چناب کے کنارے آباد ایک چھوٹے سے شہر چنیوٹ کی کہانی ماضی کے بھنور میں تنکے کی طرح گھوم رہی ہے! ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے کمال ہنر مندی سے اپنے سادپ سلیس اور رواں دواں اندازِ بیان کے ساتھ قاری کو اس گرداب سے نکال کر آزادی سے پہلے کی فضاؤں میں اتار دیا ہے۔ امجد ثاقب نے شہر شناسی کی متروک صنف کو نئی آن بان کے ساتھ حیاتِ نو عطا کی ہے۔ یہ ایک ایسا مبارک اقدام ہے کہ دل سے بے ساختہ ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔

Akhuwat: Dasht e Zulmat Main Aik Diya

اخوت: دشت ظلمت میں ایک دیا

اس کتاب کے تین حصے ہیں۔ پہلا حصہ سود کی کہانیوں پہ مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں ایک ایسے ادارے کا تذکرہ ہے جو روشنی کے دیئے سے کم نہیں۔ اس ادارے کا نام اخوت ہے اور یہ نام مواخات کے عالمگیر تصور سے مستعار لیا گیا ہے۔کتاب کا تیسرا حصہ پہلے دو حصوں کی تکمیل کرتا ہے اور غربت کا ایک واضح حل سامنے لاتا ہے۔ وہ حل ہے ایثار‘ قربانی اور صدقہ۔ مصنف کا اعلان ہے کہ غربت کا حل کسی اور شے میں نہیں صرف مواخات میں ہے یہ کتاب اس اعلان کی عملی تصویر بھی ہے۔

Aik Yaadgaar Mushaira

ایک یاد گار مشاعرہ

یہ چنیوٹ میں ہونے والے ایک مشاعرے کی روداد ہے۔

زندگی میں بے شمار مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا ہے‘۳۰ مئی ۱۹۹۱ء کو چنیوٹ میں دریائے چناب کے کنارے منعقد ہونے والا یہ مشاعرہ میری یادداشت میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ جس خوش اسلوبی سے اس مشاعرے کو منتظمین کرام نے سجایا‘سنوارا وہ ہر لحاظ سے لائق تحسین ہے۔ اتنا پر فضا مشاعرہ پاکستان میں شاید ہی کبھی منعقد ہوا ہو۔

Ghurbat Aur Microcredit

غربت اور مائیکروکریڈٹ

ڈاکٹرامجد ثاقب نے بیک وقت دو کام کئے۔ اول انہوں نے غریبوں کو بری کرادیا‘ دنیا کہتی ہے جرم غربت کو کھ سے جنم لیتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے ثابت کیا کہ جتنے ایماندار غریب ہوتے ہیں امراء اتنی ایمانداری تک سوچ ہی نہیں سکتے۔
دوم ڈاکٹر صاحب نے ثابت کردیا اگر مصنف کے دل میں جذبہ ہو تو وہ معیشت جیسے پتھریلے موضوع میں بھی پھول اگاسکتا ہے۔ یہ کتاب نہیں‘ انقلاب ہے۔
وہ انقلاب جس میں اس ملک کا مقدر بدلنے کی پوری طاقت موجود ہے۔ میں نے یہ کتاب پڑھی تو میرا پہلا تاثر تھا کاش میں ڈاکٹر امجد ثاقب ہوتا‘ کاش میں بھی اس ملک اور اس ملک کے باسیوں کے لیے کچھ کرسکتا۔

The story of the flood - سیلاب کی کہانی

سیلاب کی کہانی

جنوبی پنجاب‘ سندھ ‘ بلوچستان ‘ خیبر پختونخواہ ۔ سیلاب کی یہ دلگداز کہانی کوٹ مٹھن سے شروع ہو کر  مسجد ِ قرطبہ میں ختم ہوتی ہے۔ کوٹ مٹھن اور مسجد ِ قرطبہ ۔ یہ دو استعارے ہیں۔ سوزومستی اورفنا و بقا کے۔ کہانی جب شروع ہو تو خبر نہیں ہوتی کہ کس کس موڑ سے گذرے گی ‘ کہاں ختم ہو گی۔ اس کہانی میں بھی بہت سے موڑ ہیں۔ سیلاب زدگان کے علاوہ بہت سے اور لوگوں کا تذکرہ جو ایک ہی خواب دیکھتے ہیں۔مواخا ت کا خواب۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص کو عزت سے زندہ رہنے کا حق حاصل ہو۔ اس کہانی کا آخری موڑ مسجد قرطبہ کی عظمت اور غرناطہ کا زوال ہے۔یہ ذکر اس لیے شامل ہوا کہ ہم کمال و زوال کی حقیقت کو سمجھ سکیں۔ یہ جان پائیں کہ سلسلۂ روز و شب میں عشق ہی اصل شے ہے۔