26 Jan

سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا … (44)

یہ مختصر سرگزشت اُن چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
ملٹری کالج سے نکل کر ایک بار پھر سُوئی شہر۔ کاروباری ہلچل اور خرید و فروخت۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ یہ علاقہ سود خوروں کے چنگل میں ہے۔ بیماری‘ کاروبار‘ شادی بیاہ‘ غمی‘ خوشی۔ لوگوں کو معمولی ضروریات کے لیے بھی سود پہ رقم لینا پڑتی ہے۔ پھر یہ سود ادا کرتے کرتے خون کا آخری قطرہ بھی خشک ہو جاتا ہے۔ خدا سے ایسی جنگ! اے مملکتِ خداداد کے باسیو! یہ جنگ کب تک رہے گی۔ میرا سر ندامت سے جھک گیا اور جسم پسینے میں شرابور ہونے لگا۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ آخری سانس ہے۔
ہمارا رُخ اب واپس کشموراور گدو کی طرف تھا۔ گدو بیراج سے موٹروے اور پھر ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پہ اقبال نگر نامی ایک چھوٹا سا قصبہ‘ جہاں ہم نے رحیم یار خان کے ساتھیوں کو بلا رکھا تھا۔ اس پورے ضلع میں اخوت نے کئی ارب کے بلاسود قرضے دے رکھے ہیں۔ الحمدللہ! وہی دیانت‘ وہی ذمہ داری اور وہی بھائی چارہ۔ قرضوں کی واپسی کی شرح یہاں بھی ننانوے فیصد ہے۔ اقبال نگر کی اس خوبصورت مسجد میں ستر سے زیادہ ساتھی موجود تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو صبح و شام سود کے خلاف عَلم اٹھاتے ہیں۔ مواخات کا پیغام پھیلاتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک نے اپنی اپنی کہانی سنائی۔ یہ کہانی اصل میں ان لوگوں کی کہانی تھی جنہوں نے ان کی مدد سے غربت کی زنجیر توڑ کر خوشحالی کا راستہ اختیار کیا۔ یہی کہانیاں ہیں جن کی کوکھ سے یقین کا سورج طلوع ہوتا ہے۔ امید کی شمعیں روشن ہوتی ہیں۔ ”ایک نیا دفتر ہم سُوئی میں بھی بنائیں گے۔ سب نہ سہی‘ چند زنجیریں ہی ٹوٹ جائیں۔ کچھ گھرانوں کو ہی رہائی مل جائے‘‘۔ مسجد میں بیٹھے دوستوں نے تائید میں سر ہلایا۔ ارادہ صرف ارادہ نہیں‘ دعا بھی تو ہوتا ہے۔
عامر حسین اخوت کا مقامی سربراہ‘ سولہ سال سے اخوت کے ہمراہ ہے۔ اس طویل مدت نے اسے مکمل طور پر اخوت کے سانچے میں ڈھال دیا۔ اسی پہ کیا موقوف‘ جو بھی اس راہ پہ چلا وہ آگے بڑھ گیا۔ اخوت کا ہر ملازم ہمارا اثاثہ ہے۔ اس لیے کہ وہ سود کے استحصالی نظام کے خلاف برسرِپیکار ہے اور کم تنخواہ کے باوجود رزقِ حلال کی جستجو میں گم ہے۔ اس کے پاس اور کچھ نہیں‘ صرف ایمان‘ احسان‘ اخلاص اور انفاق کی دولت ہے۔ اخوت کے ساتھیوں نے اپنی کارکردگی کے بارے میں آگاہ کیا۔ کچھ واقعات سنائے۔ کس طرح لوگوں نے ہمت کی اور معمولی سرمایہ‘ تنکے کی طرح سہارا بن کر انہیں ساحل پہ لے آیا۔ یقینا یہ سب سود سے پرہیز کی برکت ہے۔ مواخات کا انعام اور اس ہستی کی عطا‘ جو ہر شے پہ قادر ہے۔ لاکھ دو لاکھ میں گھر کیسے بنتے ہیں اور بارشوں جیسی آفت میں بھائیوں کی مدد کیسے کی جاتی ہے‘ یہ ساری باتیں سننے والوں کی ہمت بڑھاتی رہیں۔ اقبال نگر سے نکل کر پھر موٹروے۔ ایک ریسٹ ایریا میں چائے کے لیے قیام اور پھر کچھ دیر خانیوال کے پاس اخوت کے ایک دوست کے گھر مختصر پڑاؤ۔ راولپنڈی سے آنے والے ساتھیوں کو الوداع بھی کہنا تھا۔ گزری ہوئی دلنواز ساعتیں۔ جنرل فیض جیلانی نے ان چند دنوں کی یادوں کو تازہ کیا۔ اہلِ بلوچستان سے جو وعدے کیے ان کو پھر سے دہرایا۔ اگلے سفر کے بارے میں بات ہوئی اور مسافر ایک بار پھر چل پڑے۔ اب کے رخ واپس لاہور اور اسلام آباد کی طرف تھا۔ رات بارہ بجے کے لگ بھگ ہم گھر پہنچ گئے۔ یوں لگا یہ سفر تو بے حد مختصر تھا۔ چند ہی لمحے پہلے ہم ڈیرہ بگٹی میں تھے۔ بہادر‘ جفاکش‘ ہمہ جہت‘ ہمہ صفت بلوچ جن کے دل میں گداز ہے اور سینوں میں محبت کا گہرا سمندر۔ چشمِ گل سیر ندیدم کہ بہار آخر شد۔
ڈیرہ بگٹی سے آئے چند ہی دن گزرے تھے۔ محبت کی یہ کہانی ہم نے کس کس کو نہ سنائی‘ ہم سناتے نہ تھکتے اور لوگ سنتے نہ تھکتے۔ اسی دوران نذیر تونیو کے پیغام موصول ہونے لگے۔ تھر پارکر۔ اس کا کہنا تھا کہ تھر کے صحرا میں آئے بغیر بارشوں اور سیلاب کی یہ کہانی مکمل نہ ہو گی۔ پاکستان کا سب سے بڑا صحرا۔ سیلاب تو یہاں نہیں آیا لیکن بارشوں نے یہاں بھی تباہی مچائی ہے۔ اگلی منزل اب یہی ٹھہری۔ سامان باندھنے میں دیر ہی کیا لگتی ہے۔ نذیر تونیو نے پشاور سے ایک اور عزیز دوست غلام قادر خان کو بھی بلا لیا۔ غلام قادر‘ نذیر تونیو اور ہم‘ سول سروس کے تیرہویں کامن میں دوست بنے۔ سندھ‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا۔ اس دوستی کو چالیس برس ہونے کو ہیں لیکن دوستی وہ نشہ ہے جو وقت کے ساتھ کم نہیں ہوتا بلکہ اور بڑھتا ہے۔ مہ و سال‘ دوستی کے حسن کو جلا بخشتے ہیں۔ چند ہی روز بعد ہم‘ جنید‘ علیزے اور ذیشان کے ہمراہ کراچی پہنچ چکے تھے۔ کراچی سے سات گھنٹے کی مسافت پہ ضلع تھرپارکر کا صدر مقام مٹھی‘ جسے تھر کا دل کہتے ہیں۔ وہاں سے تین گھنٹے مزید آگے تحصیل چھاچھرو میں ”صوبی جوتڑ‘‘ نامی ایک گاؤں جہاں چار سو گھر آباد ہیں۔ ہمیں یہاں‘ صحرا کے باسیوں کے ساتھ ایک رات اور دو دن گزارنے تھے۔ نذیر تونیو نے اس پورے گاؤں سے مواخات کا رشتہ جوڑ رکھا ہے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ایک خاندان ایک خاندان کو اپنا بنا لے لیکن نذیر تونیونے چار سو خاندانوں کو اپنا بنالیا۔ خدا جس کو جو توفیق دے دے۔”صوبی جوتڑ‘‘ کیا ہے؟ دور دور تک پھیلا ہوا صحرا جس کے بلند ٹیلے برسات میں سرسبز ہوجاتے ہیں۔ بجلی تو یہاں ہے نہیں۔ نہ ہی نکاسی ٔ آب کا کوئی نظام ہے۔ کبھی مکمل بے سرو سامانی کا عالم تھا۔ حکومت نے کچھ عرصہ پہلے پانی کے لیے ایک کنواں کھودا جس پر ٹیوب ویل بھی نصب ہوا لیکن یہ سب نا مکمل تھا۔ ڈیزل ملنا بند ہوا تو سب کچھ ٹھپ ہوگیا۔ امریکہ سے مشتاق جاوید اور اخوت کے ایک اور دوست ڈاکٹر مجید آرائیں نے کہا سولر کے لیے رقم ہم دیں گے‘ آپ کسی طرح پانی کی فراہمی کو یقینی بنا دیں۔ ہمیں اور کیا چاہیے تھا۔ شمسی (Solar) توانائی کے ذریعے پانی نکلنے لگا۔ ہر گھر میں صاف اور تازہ پانی کے پائپ پہنچ گئے۔ ٹونٹیاں نصب ہو گئیں اور وہ عورتیں جو صحرا کی تپتی ریت میں کئی کئی میل دور سے پانی لاتی تھیں‘ جھولیاں اٹھا کے نذیر تونیو اور ان سب کو دعا دینے لگیں جنہوں نے انہیں اپنا سمجھا۔ اب ہر گھر میں پانی کا ایک ٹینک ہے جہاں چوبیس گھنٹے صاف پانی میسر ہے۔ گھروں میں صفائی ہو گئی۔ ہرے بھرے درخت لگ گئے۔ سکولوں کی حالت بدل گئی۔ اخوت این جے وی سکول کراچی سے بچے‘ یہاں آکر پڑھانے لگے۔ پورے گاؤں میں سولر کے قمقمے روشن ہو گئے۔ ریت سے بھری گلیاں اب رات کو بھی جگمگاتی ہیں لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں۔ اصل شے وہ یقین ہے جو ہر طرف سرایت کر گیا۔ ”ہم اپنی زندگی بدل سکتے ہیں‘‘۔ جس روز کسی فرد یا کسی قوم میں یہ احساس بیدار ہو جائے پھر اسے ترقی سے کون روک سکتا ہے۔