26 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا … (41)

یہ مختصر سرگزشت اُن چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
درد کا کارواں ابھی ٹھہرا نہیں۔ ہماری کوشش ابھی جاری ہے۔ اگلی منزل کا انتخاب ہوا۔ ڈیرہ بگٹی اور سُوئی۔ یہاں جانے کی خواہش تو ایک مدت سے تھی لیکن قدرت کو اب آکے منظور ہوا۔ بارش ختم ہوئے عرصہ بیت گیا لیکن غم کی بارش ابھی کم نہیں ہوئی۔ حبیب اللہ بگٹی اور غلام احمد مسوری دونوں کا تعلق ڈیرہ بگٹی سے ہے۔ انہوں نے اگست میں ہی اخوت کی توجہ بارشوں کی طرف مبذول کرائی اور پھر ہم سے جو ممکن ہوا وہ کیا گیا۔ راشن‘ نقد رقوم‘ گھروں کی تعمیر کے لیے امداد‘ قرضے اور میڈیکل کی سہولتیں۔ اخوت کالج سے تعلیم پانے والے بہت سے طلبہ کا تعلق ضلع ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے ہے‘ وہ بھی رضاکار کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس بار ہمارا ارادہ تھا کہ ڈیرہ بگٹی ضلع میں ایک ہزار خاندانوں سے مواخات کا رشتہ قائم کریں۔ وہی رفیق‘ وہی ہم سفر۔ میجر امان اللہ اور لیفٹیننٹ جنرل (ر ) فیض جیلانی راولپنڈی سے چلے اور ہم لاہور سے۔ ان کے قافلہ میں بدر ہارون‘ عبدالمجیدخان‘ زاہد اعجازکھوکھر‘ طارق علی خان اور راؤ سعادت بھی شامل ہو گئے اور ہمارے ساتھ جنید اور علیزے۔ ہمارا ارادہ کپڑے‘ جوتے‘ گرم جیکٹس‘ ٹوپیاں‘ نقد رقوم اور کچھ تحائف پیش کرنے کا تھا۔ مستحق گھرانوں کی تلاش اور کسی مناسب جگہ ان گھرانوں سے گفتگو۔ یہ ایک مشکل کام تھا لیکن فرنٹیئرکور نے لبیک کہا اور اسے قومی فریضہ سمجھ کر ہماری مدد کے لیے آمادہ ہو گئے۔ اس سفر میں ہمارے میزبان بھی وہی تھے۔ خوش اخلاق‘ خوش مزاج۔ حلقۂ یاراں میں بریشم۔ ان کی رفاقت نے بہت سے مشکل کام آسان کردیے۔ آنکھوں کی بیماریوں کے لیے ایکEye Camp کا بندوبست بھی ہوگیا۔خواجہ فہیم‘ ان کی بہن مریم اورایک اور ساتھی قرۃ العین ہمراہ تھیں۔
ملتان‘ اس سفر میں ہمارا پہلا پڑاؤ تھا۔ کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اختر نوازکی دعوت پر سروسز کلب ملتان پہنچے۔ جنرل اختر نواز شہر سے باہر تھے لیکن ان کے ساتھیوں نے محبت سے خوش آمدید کہا اور ظہرانے کے بعد ہمیں سُوئی کے لیے روانہ کیا۔ تقریباً چھ گھنٹے کا سفر۔ موٹروے سے ہوتے ہوئے گدو بیراج‘ کشمور اور پھر سُوئی۔ گدو اور کشمور تک پہنچنا تو مشکل نہ تھا لیکن اس سے آگے سُوئی تک اڑھائی تین گھنٹے کا سفر صبر آزما تھا۔ رات کا گہرا اندھیرا اور ٹوٹی ہوئی سڑک۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تین صوبے ملتے ہیں۔ سندھ‘ بلوچستان اور پنجاب۔
گدو بیراج کی وجہ سے اس علاقے کو بہت شہرت ملی۔ سکھر بیراج کے بعد یہ پاکستان کا سب سے بڑا بیراج ہے جس سے سات نہریں نکلتی ہیں۔ قرب و جوار کے وہ علاقے جو کبھی صحرا کی مانند تھے‘ اب سرسبز و شاداب ہیں۔ کشمور کا صدر مقام‘ کندھ کوٹ اجناس کی ایک بڑی منڈی بن چکا ہے۔ گدو بیراج کا افتتاح 1962ء میں ہوا لیکن اس پہ کام 1957ء میں شروع ہو گیا تھا۔ گدو سے دس کلومیٹر کے فاصلہ پہ کشمور شہر ہے۔ پچاس ہزار کی آبادی۔ کپاس‘ گنا اور گندم۔ یہاں کھیتی باڑی عام ہے۔ ہندو مسلم آبادی کا امتزاج۔ حضرت شاہ حسینؒ کی درگاہ‘ جو چار سو برس پہلے یہاں تبلیغ کے لیے پہنچے۔ بابا غریب داس کا مندر۔ یہ دونوں مقام دکھ کی دوا ڈھونڈنے والوں کی منزل ہیں۔ اپنی اپنی تلاش اور اپنا اپنا سچ۔ سکھوں کا ایک مذہبی مقام‘ گوردوارہ نانک واڑہ بھی امن اور محبت کی دعوت دیتا ہے۔ حضرت شاہ حسین ؒ کی درگاہ میں ایک لائبریری بھی ہے۔ عربی‘ فارسی‘ سنسکرت‘ سندھی اور اردو کی نادر کتب کا ذخیرہ۔ ضلع کی آبادی دس لاکھ ہے۔ پورے ضلع میں اردو‘ بلوچی‘ سندھی‘ سرائیکی‘ پشتو‘ براہوی اور پنجابی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ مشرق کی طرف دریائے سندھ‘ مغرب کی طرف جنگل جو کچے کا علاقہ بھی کہلاتا ہے‘ کبھی کبھار حکومت کمزوری دکھاتی ہے تو یہ جگہ ڈاکوؤں کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔
کشمور سے نکل کر ہم سُوئی کی طرف روانہ ہوئے۔ ہر طرف اندھیرا۔ جس کی وجہ سے دور اور نزدیک کا ہر منظر نگاہوں سے غائب ہوگیا۔ منظر تو تھا‘ لیکن نگاہ یہ منظر دیکھنے سے قاصر تھی۔ اندھیرا پھیلتا ہے تو صرف نگاہوں پہ چھاتا ہے‘ کائنات کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیتا۔ سلسلۂ روز و شب۔ وہی سوال کہ ایسا کیوں ہے۔ شام ہوتے ہی سورج کہاں چلا جاتا ہے اور پھر چاند کس کے حکم پہ باہر نکلتا ہے۔ کہیں پہاڑ‘ کہیں وادیاں کیوں ہیں۔ دشت و صحرا میں کوئی کیا ڈھونڈتا پھرتا ہے۔ غالب کو یہ خیال کہاں سے آتا ہے:
آشفتگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں
سٹرک خاصی ناہموارتھی۔ سلسلۂ خیال بارہا ٹوٹتا‘ بارہا جڑتا۔ گیارہ بجے کے قریب ایک ایسے قصبے میں جاکے دم لیا جس کا نام بچے بچے کی زبان پہ ہے۔ سُوئی۔ ہم سیدھے فرنٹیئر کور کے ریسٹ ہاؤس پہنچے۔ رہائش کا انتظام بہت آرام دہ تھا۔ ساری تھکن دور ہوگئی۔ کھانے کے بعد کچھ دیر آرام کیا لیکن بقیہ رات پڑھنے میں گزر گئی۔
ڈیرہ بگٹی‘ جفاکش‘ بہادر اور خوب صورت لوگوں کی آماجگاہ ہے۔ بلوچستان کا یہ ضلع پنجاب اور سندھ‘ دونوں صوبوں کے ساتھ جا ملتا ہے۔ پنجاب کا ضلع راجن پور‘ سندھ کا ضلع جیکب آباد اور پھر بلوچستان کے اضلاع‘ جعفرآباد‘ نصیر آباد‘ بولان اور کولہو میں گھِرا‘ دس ہزار سے زائد مربع کلومیٹر پہ پھیلا ہوا ڈیرہ بگٹی۔ بظاہر سنگلاخ پہاڑ اور چٹیل میدان لیکن ان کے نیچے ایک بڑی دولت پوشیدہ ہے۔
تین لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل یہ ضلع کوئٹہ سے نو گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہے لیکن شمال کی طرف سفر کریں تو موٹر وے سے صرف دو گھنٹے۔ پاکستان کے چار بڑے گیس کے ذخائر میں سے تین یعنی سُوئی‘ پیر کوہ اور لوٹی یہیں پر واقع ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ان کے حجم کا اندازہ ڈیڑھ ٹریلین کیوبک فٹ سے زیادہ تھا۔ ڈیرہ بگٹی میں دو ہی موسم ہیں‘ گرم اور سرد۔ دونوں اپنی اپنی سختی میں بہت شدید۔ پہاڑوں پر سبزہ نہ ہونے کے باوجود رات بڑی خوشگوار ہوتی ہے۔ جبکہ میدانی علاقوں میں گرمی کی شدت برداشت کرنا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ گیس کی دریافت کے بعد یہاں ماحول کی آلودگی میں اضافہ ہوا لیکن شجر کاری کی وجہ سے اس آلودگی میں کمی آرہی ہے۔کئی جگہ قطار در قطار اونٹوں کی ڈاریں بھی نظر آئیں۔ اونٹوں کے گلوں سے لٹکی ہوئی گھنٹیاں۔ ان گھنٹیوں کی آواز کو جرسِ کارواں بھی کہتے ہیں یعنی وہ آواز جو کارواں والے کوچ کے وقت بلند کرتے ہیں۔ اردو شاعری جرس اور کارواں کے تذکرہ سے بھری پڑی ہے۔ اشاروں کنایوں میں شاعروں نے بہت کچھ کہا لیکن سچ وہی ہے جو حالیؔ نے کہا اور شاید ہم پر صادق بھی آتا ہے:
یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
یعنی ہمارے جیسے کم نصیب جرسِ کارواں میں کھوئے رہے اور کچھ لوگ‘ جو تیز رو تھے‘ اپنی منزل پہ پہنچ گئے۔ کہاں ہم اور کہاں وہ۔