26 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا… (42)

بلوچ بہت عظیم روایات کے امین ہیں۔ کئی ایک چھوٹے بڑے قبائل پر مشتمل بگٹی‘ بلوچ قبیلہ کی ایک شاخ کا نام ہے۔ راہیجا‘ کلپر‘ نوتھانی‘مسوری‘ فیروزانی‘سلامان زئی‘ مندرانی‘ قاسمانی‘ شمبانی‘ سوبازئی‘ پاہئی اور محرکن زئی۔ بگٹی بہترین گھڑ سوار اور جنگجو بھی ہیں جن کی فیاضی‘ ذہانت اور بہادری کسی سے کم نہیں۔بہت سال پہلے سِلویا میتھی سن (Syliva Metheson) نامی ایک برطانوی مصنفہ نے‘ جو خود آثارِ قدیمہ کی ماہر تھی‘چھ سال سوئی کے علاقہ میں گزارے۔ ہم شاید آج بھی یہ ہمت نہ کرپائیں۔ وہ اور اس کا شوہر گیس کی ایک کمپنی میں ملازم تھے۔ اس نے اپنی کتاب ”Tigers of Balochistan‘‘میں، جو 1967 ء میں شائع ہوئی‘ اس علاقے کا اس طرح ذکر کیا:
“Flat topped or carved by the winds into crenellated battlements and gigantic, bearded faces, the Lower Siwaliks emerged from the dawn mists in delicate shades of lavender – rose to resolve into harsh reds and browns and oranges; later they would dissolve into the midday heat in waves of sandy camouflage and still later they would stand in dramatic silhouettes of deep purple and grape-blacks against the startling scarlet, gold and flame of a desert sunset.”
اپنی تحقیق کے حوالے سے یہ ایک اچھی کاوش ہے لیکن کچھ لوگ اس کے مندرجات سے متفق نہیں۔مقامی روایات کو سمجھنے کے لیے اک طویل مدت درکار ہے۔ ایک برطانوی سپاہی‘سرجان جیکب جس نے جیکب آباد کی بنیاد رکھی اور جس کی زندگی پنجاب اور سندھ کو زیر کرنے میں گزر گئی‘ اپنی فوج کے ساتھ ڈیرہ بگٹی اور ملحقہ علاقوں میں بھی گھومتا رہا۔ اس کے مشاہدات بھی پڑھنے کے قابل ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ:
“From April till October, the heat in this part of the world is more deadly than the sword of a human enemy and scarcely an escort at this time marched through the country without losing many men for this cause alone…. The place is remarkable for its dust storms of almost incredible violence and density. … “
یہ ہے سوئی‘ ڈیرہ بگٹی اورپھلاوہ نامی تین تحصیلوں اور کئی دیہات نما قصبوں پہ مشتمل یہ ضلع۔ یہاں کے بہادر قبائل کی زندگی کو سمجھنا آسان کا م نہیں۔ تہہ در تہہ۔ زیرک اور دانا۔اقبال کا یہ شعر ان پہ عین پورا اترتا ہے:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی
ایک اور مشہور برطانوی مصنف ایڈورڈ جی اولیور(Edward G Oliver – 1890) نے جب ان کو انگریزوں کابہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے دیکھا تو اس کاکہنا تھا کہ :”War is looked upon as the first business of a gentleman, and every Balochi is a gentleman.”۔بگٹی‘ بلوچی زبان بولتے ہیں جس میں فارسی‘ سندھی‘ سرائیکی اور پنجابی کے بہت سے الفاظ شامل ہیں۔ پیچ در پیچ خوبصورت داڑھی اور بڑی بڑی دلکش مونچھیں ان کی شناخت ہیں۔ کپڑوں میں ایک خاص لباس” بگٹی شلوار‘‘ جسے ”کناویز‘‘ کہتے ہیں خصوصی تقریبات میں پہنی جاتی ہے۔ ایک شلوار یا کناویز پر بیس گز سے زائد کپڑا صرف ہوتا ہے۔گرہ در گرہ بنی ہوئی قمیض‘ ایک خوبصورت شال جسے” پشتی‘‘ کہا جاتا ہے اور سر پر سفید پگڑی۔” پشتی‘‘ نامی شال جس میں یہ خود کو لپیٹ کے رکھتے ہیں‘ سردی میں تیز ٹھنڈی ہوا اور گرمی میں جھلسا دینے والی لُو سے بچانے کے علاوہ سونے کے لیے تکیہ اور چادر بھی بن جاتی ہے۔ یہی ان کے لیے جائے نماز ہے۔ چمڑے کے بنے ہوئے چپل کو یہاں”چاوت‘‘کہا جاتا ہے۔ اب تو یہ ملک بھر میں پہنے جاتے ہیں۔ پائیدار‘ منفرد اور آرام دہ۔ سر پر باندھی گئی پگڑی کے لیے سفید کپڑا استعمال ہوتا ہے۔برطانوی فوج میں بھرتی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ نہ یہ پگڑی اتارنے پہ تیار تھے اور نہ ہی انہیں اپنے بالوں اور داڑھی کو کٹوانا منظور تھا۔ عورتوں کا لباس اپنی نوعیت کا مختلف لباس ہوتا ہے۔ کلائیوں میں خوبصورت کڑے‘ پاؤں میں پازیب اور کانوں میں لٹکتی ہوئی بالیاں۔ شادی شدہ عورتیں ناک میں ایک خوب صورت چوڑی پہنتی ہیں جسے ”پلوہ‘‘کہا جاتا ہے۔ ماتھے اور کانوں تک سونے یا چاندی کی زنجیر جس پر خوبصورت مقامی پتھر جڑے ہوتے ہیں۔ بالوں کے درمیان خوب صو رت مانگ۔ پردہ میں چھپی باوقار خواتین‘ لیکن ان خواتین کی زندگی بے حد مشکل ہے۔ یہاں عورتوں کی شرح خواندگی صرف چار فیصد ہے۔کیا آپ یقین کریں گے کہ پورے ضلع کے سرکاری ہسپتالوں میں ایک بھی گائنا کالوجسٹ نہیں۔وفاقی اور صوبائی‘ ہر دو حکومتوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ پاکستان کا ہر شہری آئین میں لکھے گئے حقوق مانگتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔
گیس کے علاوہ ڈیرہ بگٹی کی ایک اور اہم شے کچھی یا ” کچی کنال‘‘ ہے۔ پانچ سو کلومیٹر طویل کچی کنال پنجاب سے بلوچستان تک آبی وسائل کی فراہمی کا ایک تاریخی منصوبہ ہے۔ اس کی بدولت بلوچستان کے کئی اضلاع ڈیرہ بگٹی‘ نصیر آباد‘ بولان اور جھل مگسی کی سات لاکھ ایکڑ زرعی اراضی کو پانی میسر ہو سکے گا۔ پینے کے لیے پانی‘ فصلوں کے لیے پانی‘ روزگار‘ سیاحت اور معاشی ترقی۔ دریائے سندھ پر مظفر گڑھ کے قریب تونسہ بیراج سے شروع ہونے والی یہ نہر تین سو چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے بلوچستان میں داخل ہو کر ایک سو چھیانوے کلومیٹر کے بعد کچی کے مقام پر ختم ہو تی ہے۔ کچی کنال منصوبے کا آغاز سن 2002 میں ہوا مگر متعدد بار تعطل کے باعث تاخیر کا شکار رہا۔ہمارے بیرونی اور اندرونی دشمنوں کو بلوچستان کی ترقی پسند نہیں۔ کبھی دہشت گردی‘ کبھی بارودی سرنگیں اور کبھی اغوا اور بھتہ کے ذریعے خوف و ہراس۔ کئی طرح سے اس منصوبہ کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن پاک فوج‘ فرنٹیئر کور اور واپڈاکے بہادر انجینئرز نے ا س خاموش انقلاب کیلئے بہت قربانیاں دیں۔ سب سے اہم کردار مقامی بلوچ آبادی کا تھا۔ وہ غریب لوگ جو سرداروں کی غلامی سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔آئین کی سربلندی اور جائز حقوق مانگتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں چار سو تین کلومیٹر میں سے تین سو تین کلومیٹر پر تعمیر کا کام سن 2017ء میں مکمل ہوا تو کچی کنال کو فعال کردیا گیا۔ اس مرحلے کا باقی ماندہ کام بھی تکمیل کے قریب ہے۔ کچی کنال ایک قومی منصوبہ اور خاموش انقلاب ہے جس کی تکمیل سے بلوچستان کے ان علاقوں میں خوشحالی آئے گی جہاں عوام پانی کی ایک بوند کیلئے ترستے تھے۔ کچی کنال سے بہت سی چھوٹی نہریں بھی نکلتی ہیں جن کی بدولت ان اضلاع کا زرعی رقبہ چار فیصد سے بڑھ کر اسی فیصد ہو جائے گااور یہ پسماندہ علاقے ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ سِلویا میتھی سن کی کتاب بھی اسی کا تجزیہ ہے کہ روایت پسندبلوچ عہدِ حاضر کے تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ پہاڑوں اور پگڈنڈیوں سے نکل کر پختہ سڑکوں اور شاہراہوں کا سفر۔بے آب و گیاہ چٹیل میدانوں کی جگہ ہرے بھرے سرسبز کھیت۔ روایتی قبائلی زندگی سے ہٹ کے ایک نیا طرزِ معاشرت۔