26 Jan

سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا …(46)

کسی نے کہا خواب دیکھنا فرض ہے۔ تعبیر کا سفر خواب سے شروع ہوتا ہے۔ہم خواب دیکھتے چلے جائیں گے۔ محنت میں مگن رہیں گے۔ کامیابی تو ربِ ذوالجلال نے دینی ہے۔کبھی کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہر خواب پورا کیوں نہیں ہوتا۔یہ سلسلۂ روز و شب۔ یہاں ہر شخص کو انصاف نہیں ملتا۔ کچھ لوگ ریشم و کمخواب میں زندگی گزار تے ہیں اور کچھ نیم برہنہ یا پھر چیتھڑوں میں۔ ہم نے ایک صوفی سے پوچھا: ہر شخص کو انصاف کیوں نہیں ملتا ؟تو جواب ملا ”یہ دنیا انصاف کے لیے بنی ہی نہیں۔ انصاف تو کسی اور دن ہوگا۔کسی اور دن۔ اس روز جب پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ سمندر کا پانی بھاپ بن کے اڑ جائے گا۔دریا خشک ہو جائیں گے۔ خاموش زبانیں بولنے لگیں گی۔ ہر وہ راز جو مٹی میں دفن ہے جلی حروف میں لکھا ہوا نظر آئے گا۔ انصاف آج نہیں اس دن ہوگا جب وہ عورت‘ جو زندہ زمین میں گاڑ دی گئی‘ بہ آوازِ بلند فردِ جرم عائد کرے گی۔ یہ دنیا صرف امتحان کے لیے بنی ہے‘انصاف یا جزا و سزا کے لیے نہیں۔ کائنات کے خالق نے جزا و سزا کا فیصلہ کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھا ہے‘‘۔ صحرا کی رات بہت سے راز منکشف کرتی ہے۔ سیلابوں‘ بارشوں میں گھرے یہ لوگ اور عشرت کدوں میں جامِ مسرت لنڈھاتے ہوئے‘ ہم جیسے بے خبر۔ انصاف آج نہیں کچھ روز بعد ہوگا۔ حاکم علی کے گھر میں گزری یہ رات کئی راتوں سے اچھی تھی۔
دن بھر موسم گرم تھا لیکن رات انتہائی سرد۔ یہی صحرا کی خوبی ہے۔ دن میں سلگتی ہوئی دھوپ اور پھر رات کو نرم دل گیر چاندنی۔ صبح سویرے روایتی ناشتہ۔ گاؤں میں چند لوگوں نے اپنے گھر آنے کی دعوت دے رکھی تھی۔میں اور علیزے بڑے شوق سے وہاں گئے۔ مٹی کی لپائی والے خوبصورت گھر۔ رنگین نقش و نگار سے آراستہ۔ صحن میں پڑا ہوا مٹی کا چولہا جس کے گرد بیٹھ کے سارا گھر کھانا کھاتا ہے۔ایک چھوٹی سی بچی نے شرماتے ہوئے کہا ” آپ کراچی سے آئے ہیں۔ مجھے بھی پڑھنے کے لیے کراچی جانا ہے‘‘۔کتنا معصوم خواب تھا۔ کراچی شاید اس کے لیے جنت تھی۔ کچھ دیر ہم اسی گھر میں بیٹھے رہے۔کبھی اس سے بات کرتے کبھی اس کے بہن بھائیوں سے۔ ایک سے بڑھ کرایک ذہین۔ ان سب لوگوں کی باتوں میں سادگی تھی۔ شہر میں لوگ ایسی باتیں کیوں نہیں کرتے۔ کچھ اور گھروں میں جانے کا اتفاق بھی ہوا۔وہی سلیقہ‘ وہی دل نوازی۔ اسی دوران قافلہ تیار تھا اور ہم چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک اور گاؤں” میٹھا در‘‘ پہنچ گئے۔یہاں کی سو فیصد آبادی ہندوؤں پہ مشتمل ہے۔غربت نے درودیوار کی کیا حالت بنا رکھی تھی۔ ان کی پسماندگی دیکھ کے صرف آنسو بہائے جاسکتے ہیں۔
حسرت سی برستی ہے در وبام پہ ہر سُو
روتی ہوئی گلیاں ہیں سسکتے ہوئے گھر ہیں
تھر کی مجموعی آبادی کا پینتالیس فیصد سے زائد ہندو ؤں پہ مشتمل ہے۔ تحمل‘ برداشت‘ رواداری میں پوار تھر پاکستان میں سرِ فہرست ہے۔ہندو ہوں یا مسلم‘ ایک دوسرے کے عقائد کا احترام‘ ان کا‘ سب سے بڑا اصول ہے۔ میٹھادر میں ایک شادی ہونے والی تھی۔ حاکم علی ہمارا ہاتھ پکڑ کے اس گھر میں لے گیا۔ دلہن ایک جھونپڑی میں پردہ کیے بیٹھی تھی اور باہر کچھ رسومات ہو رہی تھیں۔ خوشی کا تعلق غربت سے ہرگز نہیں۔ غربت اور شے ہے خوشی اور شے۔ فضاؤں میں اڑتا ہوا پرندہ‘ باغ میں ناچتا ہوا مور‘ ماں کی گود میں مسکراتا ہوا بچہ۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں‘ پھر بھی یہ خوش ہیں۔ میٹھا در میں اَسی فیصد بچے ننگے پاؤں تھے۔دنیا جہاں کی نعمتیں ہمارے پاس ہیں لیکن ہم پھر بھی شکر ادا نہیں کرتے۔ کسی صوفی سے کسی نے پوچھا‘ صبر کیا ہے؟ جواب ملا ”اگر کچھ بھی میسر نہیں تو اسے خدا کی رضا سمجھ کر خوش رہو‘‘۔ پھر پوچھا‘ توشکر کیا ہے؟جواب ملا ” جو میسر ہے اسے خدا کی راہ میں بانٹ دو‘‘۔صوفی نے یہ بھی کہا کہ یہ باتیں ہرکس و ناکس کے لیے نہیں۔ صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو حق الیقین کے درجہ پہ ہوں۔ فنافی اللہ۔
میٹھادر اور صوبی جو‘تڑ۔ یہاں ہم نے دو دنوں میں بہت کچھ سیکھا۔ غربت اور محرومی کیا ہے۔ صبر اور شکر کسے کہتے ہیں۔ یہ سب جاننا ہوتو چند روزاس لق ودق صحرا میں گزاریں۔میٹھا در کے لوگوں نے بہت محبت سے الوداع کہا اور ہم صوبی جو‘تڑ کے راستے اسی خستہ حال سڑک سے ہوتے ہوئے تھر کے ضلعی صد ر مقام مٹھی کی طرف چل پڑے۔مٹھی‘اچھا خاصہ قصبہ جس کی آبادی اڑھائی لاکھ افراد پہ مشتمل ہے۔ ہندو بھی اور مسلم بھی لیکن مذہب عناد کا باعث نہیں ہر طرف امن اور آشتی۔ مٹھی میں ہم سیدھے ایک مندر پہنچے جہاں ساٹھ ستر افراد جمع تھے۔اکثر ہندو کچھ مسلم۔ وہ لوگ جنہوں نے اخوت سے قرض لے کر کاروبار کیا اور پھر وہ لوگ بھی جن کے گھر بارشوں میں منہدم ہوگئے اور انہوں نے تعمیر کے لیے ایک سے تین لاکھ کا بلاسود قرضہ لیا۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرسائرہ جاوید اور اسسٹنٹ کمشنرسلمون ایوب بھی وہاں موجود تھے۔ سائرہ جاوید کی گفتگو اور دردِ دل نے سب کو متاثر کیا۔ کس بے چینی سے وہ تھر کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتی تھیں۔سائرہ اورسلمون۔ ان دونوں کی موجودگی امید کا پیغام دیتی رہی۔
باتیں ختم ہوئیں تو کچھ لوگوں نے ہمارا ہاتھ تھام لیا۔ کچھ ڈر‘ کچھ خوف‘ کچھ جھجکتے ہوئے۔ انہوں نے ہمت جمع کرکے عجیب سی بات کہہ دی۔ ”ہم سب ہندو دھرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ہم نے یہ مندر بہت شوق سے بنایا۔ ہم یہاں بھگوان کی عبادت کے لیے آتے ہیں۔ بجلی چلی جاتی ہے تو عبادت میں رخنہ پڑتا ہے۔ ہم ایک یو پی ایس (UPS) لینا چاہتے ہیں۔ کیا آپ ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ بھگوان آپ سے راضی ہو‘‘۔اچانک ایک دھماکہ سا ہوا۔
یہ بھگوان کون ہے۔ کیا یہ میرے خدا سے مختلف ہے۔کیا ان کا سچ میرے سچ سے الگ ہے۔خدابھگوان ہے یا بھگوان خدا ہے۔ کچھ سوال میرے ذہن میں اُٹھنے لگے۔ میں ان کی بات بھول کر اپنے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے لگا۔ ایک لمحے میں انسان کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ کیا ہم مندر کے لیے کوئی تحفہ دے سکتے ہیں؟خدا اور بھگوان میں کیا فرق ہے؟ یہ سوال ہر طرف پوری شدت سے گونج رہا تھا۔ میں نے سوچا کسی عالم ِ دین سے پوچھ لینا چاہیے۔ کسی مفتی سے‘ کسی شیخ سے یا پھر کسی صوفی سے۔ صاحبِ درد یا صاحبِ حال سے۔ اگر ان سب نے منع کردیا تو انکار کا سندیسہ بھیج دیں گے اور بھگوان پہ یقین رکھنے والے کسی دوست سے کہہ دیں گے کہ وہی ان کی مدد کردے۔ مجھے برصغیر کے وہ بزرگ اور درویش یاد آنے لگے جن کے لنگرسب کے لیے کھلے تھے۔ جہاں خیر کی دولت یکساں بٹتی تھی اور انسانوں میں فرق نہ ہوتا۔ایسی درگاہیں جہاں سے ایک ہی آواز بلند ہوتی کہ
ہم کشمکشِ دیر و حرم سے ہیں بہت دور
انسان کی عظمت پہ نظر اپنی گڑی ہے