26 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا…(40)

قرطبہ کی یاد اور وطن واپسی۔ یہ سرما کے آخری دن ہیں۔ سردی اپنے عروج پہ ہے۔ جسم و جاں کو چیرتی ہوئی ہوا۔جی چاہتا ہے آتش دان کے پاس بیٹھے رہیں۔ لمبی ‘ طویل راتیں۔ یہ نعمت‘ لیکن ‘ سب کو میسر نہیں۔ سیلاب سے تباہی کا وہی عالم ہے۔ ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے بوسیدہ خیموں میں پناہ لیے بیٹھے ہیں۔ پھٹا ہوا لحاف‘ پھٹے ہوئے کپڑے۔ کوئی امید بھی نہیں کہ جسم و جاں کو گرمیٔ شوق ہی عطا کردے۔ آتش دان کیا ہوتا ہے یہاں تو چولہا جلانے کے لیے بھی لکڑی نہیں۔ یہ ہیں وہ اہلِ وطن جوسیلاب سے متاثر ہوئے۔ جو حیرت زدہ ہیں کہ ان کے بہن بھائی انہیں اس قدر جلد بھول گئے۔ انہوں نے تو کہا تھا ”ہم گھر بنا کے دیں گے۔ موسم کی سختیوں سے بچائیں گے۔ کسی کی آنکھ سے آنسو نہیں بہیں گے‘‘۔”میرا نام رضیہ ہے۔ میں تین بچوں کی ماں ہوں۔ میں اپنے کم سن بچے کے نیلے ہوتے ہوئے ہونٹ کیسے دیکھوں۔ پہلے وہ پوری روٹی کھاتا تھا اب آدھی روٹی ملتی ہے۔ پوری اور آدھی روٹی میں جو فرق ہے وہ کوئی اور نہیں جانتاایک ماں ہی جانتی ہے۔ میں دکھ کی اس گھڑی میں کس کو آواز دوں‘‘۔ دشتِ بے کراں اور گہری مایوسی۔ دور دراز کسی ٹیلے پر لگے چند خیمے اور ان سے اٹھتی ہوئی ایک صدا :
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
تنہائی کے زہر میں ڈوبے یہ بے سہارا لوگ۔
ہم سپین سے واپس لوٹے تو یوں لگا راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے۔ ان بے آباد لوگوں کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں۔ گویا بارش تو برسی ہی نہیں۔ سیلاب تو آیا ہی نہیں۔ نہ کوئی بدمست لہر‘ نہ کوئی منہ زور ریلا‘ نہ کوئی موجِ بلا خیز۔ ہم نے ایک بار پھر ان مناظر کو سامنے لانے کی کوشش کی جنہیں دیکھ کے لوگوں کے آنسو نہیں رکتے تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور وفاقی حکومت نے بین الاقوامی سطح پر اپنی کاوشیں جاری رکھیں اور بالآخر نو جنوری 2023 ء کو جنیوا میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کانفرنس کا موضوع پاکستان میں سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی اور تعمیرِ نو رکھا گیا۔ اس موقع پر عالمی برادری نے پاکستان کے لیے بھرپور مدد کا اعلان کیا اور دس ارب ڈالر کے لگ بھگ امدادکا فیصلہ ہوا۔یہ رقم پاکستان کی درخواست سے تقریباً اڑھائی ارب زیادہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے تعمیر نو کیلئے 8 ارب ڈالر فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے بھی ان کوششوں کے لیے بڑے پیمانے پر امداد دینے کی درخواست کی اور کہا کہ پاکستان کو ماحولیاتی انصاف دیا جائے۔ کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے تعمیرِ نو فریم ورک (4 آر ایف: 4RF) 1: Recovery ‘2:Rehabilitation‘ 3:Reconstruction‘4:Resilienceکو تفصیلی طور پر پیش کیا گیا جو ایک ہمہ جہت حکمت عملی پر مشتمل ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں اس سانحہ سے نپٹنے کے لیے سولہ ارب ڈالر درکار ہیں جن میں سے آدھے ہم اپنے وسائل سے مہیا کریں گے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب بارشوں کا سلسلہ تھما تو ملک کے عین درمیان ایک سوکلو میٹر طویل ندی بن چکی تھی۔ اس قدرتی آفت سے ہرسات میں سے ایک پاکستانی متاثر ہوا۔ مجموعی طور پر یہ تعدادتین کروڑ تیس لاکھ بنتی ہے۔ان میں ہزاروں بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے کئی علاقے تاحال زیر آب ہیں۔ہماری سرگرمیاں جاری ہیں اور ہم بحالی اور تعمیر نو کے اقدمات کے لیے صبح شام کوشاں ہیں۔ فرانسیسی صدر ‘ یورپی کمیشن کی صدر‘اسلامی ڈویلپمنٹ بینک کے صدر ‘ عالمی بینک کے صدر اور نائب صدر برائے جنوبی ایشیا‘اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ یو این ڈی پی کے سربراہ‘وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے بھی خطاب کیا۔ اتنے بہت سارے دوست۔ کچھ نے اظہارِ یکجہتی کیا اور کچھ نے امداد کا اعلان۔ ہماری جانب سے اظہارِ تشکر اور عزمِ نو کا ارادہ۔
سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیوگوتریس نے غریب اقوام سے یکجہتی کا حق ادا کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ” اس تباہ کن سیلاب سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے ہرطرف بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو تین سال کی مدت میں تین ارب ڈالر کی امداد درکار ہوگی۔ میں نے پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی کا خود جا کر مشاہدہ کیا ہے۔ تباہی کے وہ مناظر دیکھ کر میرا اور میرے ساتھیوں کا دل ٹوٹ گیا لیکن ان مشکل حالات میں بھی ہم پاکستانیوں کا جذبہ دیکھ کر حیران ہوئے۔ پاکستان کے عوام نے سیلاب متاثرین کیلئے بے حد فراخدلی کا مظاہر ہ کیا۔ اس سیلاب نے نوے لاکھ لوگوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا۔ ہمیں پاکستانی عوام کے ایثار کی برابری کرنا ہوگی۔ ماحول میں کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد بھی نہیں ہے اس لیے تباہ کن سیلاب کا ذمہ دار پاکستان ہرگز نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے لوگ نہ صرف قدرتی آفات بلکہ عالمی مالیاتی نظام کے اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی شکار ہوئے ہیں۔یہ کیسا نظام ہے جو قرضوں کی ادائیگی میں آسانی اور قدرتی آفات کے خلاف سرمایہ کاری کے لیے امداد سے روکتا ہے۔ہمیں ترقی پذیر ممالک سے ہونے والے غیرمنصفانہ رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔جانی و مالی نقصان کے حوالے سے کوئی شک ہے تو پاکستان چلے جائیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریاں ایک حقیقت ہے‘‘۔اپنے خطاب کے اختتام پر انتونیو گوتریس نے کہا کہ آج کی کانفرنس پاکستان کی تعمیر نو کے طویل سفر کی جانب پہلا قدم ہے۔اقوام متحدہ پاکستان کے ساتھ ہے اورہمارا ہر قدم پاکستانی عوام کے اپنے جذبوں‘ برداشت اور فراخدلی کا عکاس ہوگا۔
وزیراعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ ”میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے والے ممالک کی حکومتوں اور دیگر اداروں کا شکر گزار ہوں۔ ہم تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ہمارے لیے سوال صرف یہ نہیں کہ ہمیں زندہ کیسے رہنا ہے‘ اصل سوال یہ ہے کہ ہم اپنی عزت اور وقار کو کیسے بحال رکھیں؟ ہمیں سیلاب سے متاثر ہ تین کروڑ افراد کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے‘ انہیں واپس زندگی کی طرف لا نا ہے۔ روزگار کے لیے تیار کرنا ہے۔ پاکستانی قوم نے اس تباہی کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے۔ جو لوگ خود کم وسائل کے مالک ہیں‘ انہوں نے بھی آگے بڑھ کر ان کی مدد کی ہے‘جنہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔آج میں آپ سے بھی ان افرادکے لیے مدد چاہتا ہوں جن کی زندگی کی جمع پونجی لٹ چکی ہے۔سیلاب سے متاثرین سخت سردی میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور اور آپ کی محبت کے منتظر ہیں‘‘۔یہ الفاظ دل پہ اثرکرتے ہیں لیکن اے کاش ہم یہ سب نہ کہتے۔اس مقام تک نہ پہنچتے۔ اپنے وسائل کے اندر رہنا سیکھ لیتے۔ خود سے ہی آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیتے۔ عزت اور وقار کا راستہ تو یہی ہے۔