26 Jan

سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا…(43)

یہ مختصر سرگزشت اُن چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
یہ تھیں وہ معلومات جو ہم نے گزشتہ چند روز میں اکٹھی کیں اور جن پہ غور کرتے ہوئے ساری رات گزر گئی۔ اگلی صبح بارش سے متاثرہ افراد سے ملنے کے علاوہ ہمیں ڈیرہ بگٹی شہر بھی جانا تھا لیکن سب سے پہلے ہم سُوئی میں واقع ایف سی ہائی سکول پہنچے۔ یہ سکول فرنٹیئرکور نے اپنے وسائل سے تعمیر کیا ہے۔ پہلی سے بارہویں تک۔ خوبصورت معصوم بچوں نے مل کر قومی ترانہ ‘جو قومی وحدت کا نشان ہے‘ پڑھاتو اس کی بازگشت چاروں طرف گونجنے لگی۔ اساتذہ میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں سے انہیں کس طرح جوڑا جائے۔جو سہولیات موجود نہیں کیسے فراہم کی جائیں۔ اس پہ بات ہوئی۔ پرنسپل عدنان بگٹی اس درسگاہ کو ایک مثالی ادارہ بنانے میں مگن تھے۔ سکول سے نکل کر ہسپتال پہنچے جہاں خواجہ فہیم کی سربراہی میں آئی کیمپ لگ چکا تھا۔ شام تک کئی سو لوگوں کی آنکھوں کا معائنہ ہوا اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کو چشمے فراہم کئے گئے۔ تین سے چار ماہ کے دوران ایک اور کیمپ لگے گا۔ انشاء اللہ۔ یہ وعدہ بھی کیا گیا۔ کیمپ سے نکل کر ہم ایک وسیع میدان میں پہنچے جہاں اصل تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بارشوں سے متاثر اور غربت میں گھِرے ایک ہزار خاندان۔ ہر خاندان کے ساتھ محبت اور اخوت کا رشتہ۔ کچھ حقیرسے تحفے۔ ان تحفوں میں سب سے بڑا تحفہ ایک ایک ٹوپی کا تھا۔ اونی ٹوپی۔ جب ہم نے ان سے مخاطب ہو کے کہا کہ جب کوئی شخص اپنے بھائی کو پگڑی یا ٹوپی پہناتاہے تو یہ اس امر کا اعلان ہے کہ اب ہماری عزت اور آبرو سانجھی ہے۔ ہم ایک نہ ٹوٹنے والے رشتہ میں بندھ چکے ہیں۔ لوگوں نے ٹوپیاں اپنے سر پہ رکھیں تو احساس ہوا یہ کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔
یہ تحفے اور یہ ٹوپیاں جذبات کا ایک خوبصورت اظہار تھا۔ ہمارے اپنے ساتھیوں کی آنکھیں نمناک ہونے لگیں۔ تقریب کے بعد نجانے کتنے بلوچ بھائیوں اور بزرگوں نے گلے لگایا۔ کمزور ‘ نحیف اور ناتواں لیکن ان کے خلوص اور جذبوں کی تپش ہمارے جسم و جاں میں سرائیت کرنے لگی۔ ماحول کو اخوت کی چادر نے اپنے حصار میں لے لیا۔ ایک خوشبو جس کی مہک چاروں جانب پھیل گئی۔ اس خوشبو کا ماخذ مدینہ نامی ایک بستی کی ایک گلی کا ایک گھر ہے۔ نورِ ہدایت کا منبع۔
اس خوبصورت تقریب کے بعد ہم ڈیرہ بگٹی روانہ ہوئے۔ خشک پہاڑوں میں گھِرا چھوٹا سا شہر۔ گلیوں کوچوں سے گزرتے ہوئے ‘ ایک طائرانہ سا جائزہ لینے کے بعد اس سکول پہنچے جو پاک فوج نے تعمیر کیا۔ کئی سو بچوں کا مستقبل اس سکول سے وابستہ ہے۔ ٹیکنالوجی کی بہترین سہولتوں سے آراستہ یہ سکول ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہو گا۔ہمیں یہ جان کے بہت خوشی ہوئی کہ اخوت کالج سے پڑھ کے نکلا ہوا ایک نوجوان اس سکول میں استاد کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے یونیورسٹی میں داخلہ مل چکا تھا لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ دیر بعد سوچوں گا۔ ابھی مجھے اس مٹی کا قرض ادا کرنا ہے اوربوڑھے ماں باپ کو سہارا دینا ہے۔ رضا بگٹی کا یہ ایثار۔ کتنے لوگ ہیں جو اپنے اپنے گاؤں سے رضا بگٹی کی طرح پڑھنے کے لیے نکلے اور پھر کبھی لوٹ کے نہ آئے۔”اک ذرا صبر کے فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔ضرور آئیں گے‘ ایک دن یہ لوگ ضرور آئیں گے۔ کچھ دیر ہو گئی تو کیا۔ مٹی کا قرض ہر شخص کو ادا کرنا ہے‘‘۔ دل کے کسی گوشہ سے آواز بلند ہوئی۔
ڈیرہ بگٹی میں کبھی سرداروں‘ نوابوں اور مقامی حکمرانوں کا سکہ چلتا تھا۔ چند ایک تو ایسے بھی گزرے جنہوں نے اس علاقے میں آمدورفت کو محدود رکھنے کے لیے سٹرکوں کی تعمیر تک کی اجازت نہ دی۔ انہیں کون سمجھاتا کہ دریا کے سامنے مٹی کا بند زیادہ دیر کھڑا نہیں رہتا۔ ایک روز سٹرک نہ بھی ہوئی تو دنیا ایک ہو جائے گی۔ آمدورفت کی آسانی البتہ ضروری ہے۔ کشمور سے سوئی اور ڈیرہ بگٹی کی خستہ حال سٹرک ازسرِ نو تعمیر ہو جائے تو موٹروے تک کا سفر صرف دو گھنٹے کا رہ جائے گا اور پھر وہاں سے سکھر ‘ کراچی ‘ ملتان ‘ لاہور اور اسلام آباد۔ لوگوں کے باہمی روابط ہی قومی یکجہتی کی بنیاد ہیں۔اور پھر یہ بھی کہ لوگ گھر سے نکلیں گے تو رضا بگٹی بنیں گے۔
سرِ شام ڈیرہ بگٹی شہر سے واپسی ہوئی۔ ناہموار ٹیلے ‘ چٹیل میدان‘ کہیں کہیں درخت اور سبزہ۔ بھیڑ بکریاں اور اونٹوں کی ڈاریں۔ فضا میں بکھرتی گھنٹیوں کی آواز۔ یہ سب کچھ شہروں میں نہیں۔ اسے محسوس کرنے کے لیے ڈیر ہ بگٹی آنا پڑے گا۔ اگلی صبح ہمارا پروگرام ایک اور حیرت کدہ یعنی ملٹری کالج سُوئی جانے کا تھا۔ یہ ادارہ دس بارہ سال پہلے بنا اور اس کی بدولت اس علاقے کے نوجوان انتہائی معیاری تعلیم کے بعد زندگی کے ہر شعبے میں نام پیدا کرنے لگے۔ پچپن فیصد بچے بلوچستان سے اور بقیہ پاکستان کے ہر صوبہ‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے۔ اب تک یہاں سے صرف ڈیرہ بگٹی کے پچپن نوجوان پاک فوج اور دو پاک نیوی میں کمیشن لے چکے ہیں۔ کوئی میڈیسن ‘ کوئی انجینئرنگ ‘ کوئی بزنس ‘ کوئی بینکنگ۔ خوبصورت آڈیٹوریم میں بیٹھے ان چاک و چوبند بچوں کو دیکھ کے اورماڑہ نیوی کیڈٹ کالج کی یاد آنے لگی۔ تعارف کے بعد گفتگو کی دعوت ملی۔
اپنی کہانی‘ اپنے دوستوں کی کہانی ‘اخوت کی کہانی۔ ایثار اور محبت کا قصہ۔ امامت کیا ہے اور اقبال نے شجاعت ‘ عدالت اور صداقت کا سبق پڑھنے کی تلقین کیوں کی۔ ایمان‘ اتحاد اور تنظیم کیا ہیں۔ قائداعظم نے ان کا درس کیوں دیا۔ ایک بڑے انسان میں کیا خوبیاں ہوتی ہیں۔ ایک بچے نے سوال کیا ”انسان جس شے کی جستجو کرلے کیا وہ مل جاتی ہے؟‘‘ ہمیں مولانا روم کی بات دہرانا پڑی کہ انسان جس شے کی تلاش میں ہے وہ شے بھی انسان کی تلاش میں ہے۔ فیصلہ اس بات پہ ہوگا کہ تلاش کس قدر سچی ہے۔ بچوں نے بہت سے سوال پوچھ ڈالے۔بعض اوقات سوال جواب سے اہم ہوتا ہے۔ اچھا سوال خود ہی جواب بن جاتا ہے۔ سکول کے پرنسپل بریگیڈیئر وسیم قیصر اوران کے ساتھیوں نے ایک ایسا ادارہ بنا دیا جہاں پاکستان کا مستقبل تعمیر ہوتا ہے۔ بریگیڈیئر وسیم قیصر سے مختصر ملاقات اور دلکش طرزِ تعمیر کے حامل سُوئی ملٹری کالج سے روانگی کا لمحہ بھی آن پہنچا۔ دس سال پہلے جن لوگوں نے اس کالج کی بنیاد رکھی وہ کس قدر درد مند اور ذہین تھے۔وہ جانتے تھے کہ صحرا میں بویا ہوا ایک بیج بھی گھنا درخت بن جاتا ہے۔ ہاں آب یاری اور نگہداشت کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔