30 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 1…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا یہ مختصر سرگزشت اُن چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیر نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)۔کون ہے جو اَب تک سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہ نہیں۔ پوری قوم سوگوار ہے۔ ہر طرف دکھ اور درد کی فضا ہے۔ سینکڑوں جانیں گئیں‘ مال اور مویشی بہہ گئے‘ بارش اور پانی کے منہ زور ریلوں نے گھروں کوز مین بوس کر دیا۔ مضبوط عمارتوں کا نشان باقی نہ رہا۔ بے بسی‘ بے چارگی‘ کون کہاں جائے‘ کون کسے پکارے لیکن درد اور دکھ کی اس گھڑی میں بھی کچھ لوگ خدمت کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ ہزاروں لوگ اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے میدانِ عمل میں نکلے۔ سینکڑوں فلاحی تنظیمیں ریسکیو اور ریلیف کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگیں۔ پاکستان کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں پر لوگو ں نے اپنے بھائیوں کی امداد نہیں کی۔ سب سے اہم بات یہ کہ بڑے بڑے فلاحی اداروں کے انتہائی آفت زدہ علاقوں میں پہنچنے سے پہلے ہی مقامی سطح پر امداد کا کام شروع ہو گیا۔ نیکی تو ہر جگہ ہے‘ ہر قریہ ہر بستی میں۔ ایک چھوٹی سی مثال نے تو مجھے حیران کر دیا۔ یہ ضلع راجن پور کے ایک قصبہ فاضل پور کے ایک شخص کی کہانی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ جب میں نے یہ دیکھا کہ بارش سے متاثرہ خاندان بھوکے ہیں تو میں نے اپنے گھر سے کچھ سامان اکٹھا کیا اور ایک دیگ پکا کر ان میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے سڑک پر ہی وہ دیگ رکھی چولہا بنایا‘ آگ لگائی اور دیگ پکنے لگی۔ قریب سے گزرتے ہوئے کسی شخص نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے اسے بتایا کہ میں اپنے ان بھائیوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں جو آج مصیبت میں ہیں۔ ان کو کھلایا ہوا کھانا شاید میری نجات کا باعث بن جائے۔ مجھے خدا کا قرب مل جائے۔ اس نے مجھے رشک اور حیرت سے دیکھا اور کہنے لگا: کیا میں بھی آپ کے ساتھ شامل ہو سکتا ہوں؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے بھی پیسے اکٹھے کیے اور ایک دیگ اور پکنے لگی۔ ان دو دیگوں کو پکتے ہوئے دیکھ کر تیسری دیگ‘ پھر چوتھی‘ پانچویں اور آج ہم شہر کے لوگوں کی مدد سے ہرروز بیسیوں دیگیں پکاتے ہیں اور اپنے بھائیوں کو پیش کرتے ہیں۔ ایثار کا یہ ایک عجیب منظر تھا۔ یہ مت سمجھیے کہ بڑے بڑے شہروں سے ہی فلاحی تنظیمیں جا کر لوگوں کی مدد کرتی ہیں۔ مقامی سطح پر امدادِ باہمی کا بھی ایک نظام موجود ہے اور لوگ ایثار و قربانی پر آمادہ ہیں۔ نیکی تو ہر جگہ موجود ہے‘ ہرقریہ‘ ہر بستی۔
اسی دوران ہم نے اخوت کے ذریعے ایک مربوط اور جامع حکمت عملی کے تحت اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ہمارے سینکڑوں ساتھی میدانِ عمل میں اتر پڑے۔ ان کی ہمت بڑھانے کے لیے ہمیں بھی گھر سے نکلنا تھا اور یوں میں نے بھی ان کے ہمراہ ان علاقوں میں پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے جنوبی پنجاب کا انتخاب ہوا اور یوں ہم اپنے پہلے وزٹ میں ضلع راجن پور کے شہر کوٹ مٹھن جا پہنچے۔ جہاں اخوت نے 2010ء کے سیلاب میں بھی غیر معمولی کام کیا تھا۔ کوٹ مٹھن میں حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کا مزار بھی ہے۔ ان کی دانش‘ شاعری اور نظر کا فیض پورے سرائیکی علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کی شاعری میں توحید‘ عشقِ مصطفی ﷺ اور انسانیت سے محبت کوٹ کوٹ کے بھری ہے۔ انہوں نے لوگوں کو تصوف اور درد مندی کی طرف مائل کیا۔ ایثار اور قربانی کا درس دیا۔ اسی کوٹ مٹھن کے نواح میں حالات دگرگوں تھے۔ سینکڑوں متاثرین دکھ کی بارش میں بھیگے‘ بکھرے ہوئے نظر آئے۔ کوئی سڑک کے کنارے‘ کوئی کسی بلند ٹیلے پر۔ چند ایک سے ملاقات ہوئی۔ اخوت نے وہاں میڈیکل کیمپ بھی لگایا۔ راشن بھی تقسیم ہوئے اور کچھ کیش بھی۔ لوگوں کی ان اقدامات سے مدد تو ہوتی ہے لیکن اصل خوشی انہیں اس وقت ملتی ہے کہ جب ہم ان کو گلے لگاتے ہیں۔ ان کو یہ احساس دیتے ہیں کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں اکیلے نہیں بلکہ پورا پاکستان ان کے ساتھ ہے۔ میڈیکل کیمپ میں آنے والے بچے انتہائی کمزور اور لاغر تھے۔ پہلے سے ہی کم خوراک کی وجہ سے بیماریوں کا شکار۔ جو عورتیں ہم نے دیکھیں ان کی عجیب صورتحال تھی۔ چھوٹا قد‘ کم وزن اور بار بار زچگی کی وجہ سے کمزور اور بدحال۔ ان کی طاقت جواب دے چکی تھی۔ تقریباً تمام بچے سٹنٹنگ (Stunting) کا شکار تھے۔ Stunting ایک مرض نہیں بلکہ امراض کی ماں ہے۔ اس عارضے کا شکار بچے اپنی عمر کے پہلے دو سال میں مناسب خوراک سے محروم رہتے ہیں۔ ان بچوں کی ذہنی نشوونما نہیں ہوتی۔ ذہانت میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بہادری اور ہمت جیسی خصوصیات سے محروم ہوتے ہیں اور زندگی کی مشکلات کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس عارضے سے مقابلے کے لیے ہماری حکومت کی حکمت عملی کیا ہے۔ شاید کسی کو کچھ خبر نہیں۔ یہی سوچتے ہم ایک چھوٹی سی خیمہ بستی میں پہنچے۔ لوگوں کو خوراک بھی دی گئی‘ حوصلہ بھی‘ دوائیاں بھی۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنے‘ جوتوں کے بغیر ننگے پائوں بچے۔ وہاں پر ہمیں کئی ایک مقامی کارکن بھی ملے جنہوں نے ہماری بہت مدد کی‘ کچھ افراد کی سیاسی وابستگیاں بھی تھیں لیکن انہوں نے سیاست سے بلند ہو کر کام کرنے کا عہد کر رکھا تھا۔ لوگوں نے بتایا کہ راجن پور سے فاضل پور کی طرف یا جام پور کی طرف جائیں تو وہاں پر بہت تباہی ہوئی ہے‘ جگہ جگہ سڑک بھی ٹوٹ پھوٹ گئی۔ آمدورفت کا بھی مسئلہ ہے‘ سامان کی ترسیل بھی ممکن نہیں ہے۔ آسانی سے لوگوں کی مدد بھی نہیں کی جا سکتی لیکن لوگوں نے پھر بھی ان مشکلات کا مقابلہ بہادری سے کیا۔ بچوں کے بوسیدہ ملبوسات‘ ننگے پائوں‘ کمزور اور نحیف عورتیں اور کھلے آسمان تلے بیٹھے لوگ۔ کوٹ مٹھن شہر کی دو مساجد میں لوگوں کو اکٹھا کرکے راشن اور نقد رقم پیش کی گئی۔ ان کے چہروں پر تشکر کے جو جذبات تھے وہ کون بیان کر سکتا ہے۔ کچھ وقت صورت حال کا جائزہ لینے‘ لوگوں سے باتیں کرنے اور شہر میں گھومنے کے بعد ہم نے خواجہ غلام فرید ؒ کے مزار پر بھی حاضری دی۔ کانوں میں ان کا مشہور مقولہ گونج رہا تھا جو انہوں نے امیر بہاولپور کو ایک خط میں لکھا… ”زیر تھی‘ زبر نہ تھی‘ متاں پیش پئی ہوندی ہووے‘‘ ترجمہ: ”انکسار اختیار کر‘ اَنا اور غرور کا شکار نہ ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ رب کے حضور پیشی پڑ جائے‘‘۔ خواجہ کی یہ نصیحت سنہری الفاظ میں لکھنے کے قابل ہے۔ ہر ذہن پر‘ پر دل پر‘ ہر قریۂ جان پر‘ یہ نصیحت ہمارے علاوہ ہمارے رہنمائوں کے لیے بھی ہے۔ اگر وہ انکسار اختیار کرتے اور غرور کا شکار نہ ہوتے تو آج یہ ہزاروں لوگ یوں دربدر نہ ہوتے۔ بھوک‘ پیاس اور بیماری ان کا مقدر نہ بنتی۔ یہی کچھ سوچتے اور غورو فکر کرتے ہوئے میں اور میرے دوست کوٹ مٹھن سے نکلے‘ ہمیں اگلی منزل کی طرف جانا تھا۔