30 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 10…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

پہاڑوں اور سمندر کے درمیان بل کھاتی ہوئی کوسٹل ہائی وے متحیر کرتی رہی۔ راستے میں ایک جگہ چائے پینے کے لیے ٹھہرے۔ لسبیلہ کے اس علاقے کو ہنگول نیشنل پارک کہتے ہیں۔ 2002ء میں ہالی وُڈ کی مشہور اداکارہ اور اقوامِ متحدہ کی سفیر انجلینا جولی نے بھی اس سٹرک پہ سفر کیا تھا۔ پہاڑوں اور سمندر کے درمیان ایک جگہ اچانک وہ مسحور ہو کے رک گئی۔ یہاں پر قدرتی ہواؤں نے پہاڑوں کو اس طرح سے کاٹا تھا کہ اسے چٹانوں کے عین درمیان ایک نسوانی تصویر بنتی ہوئی نظر آئی۔ انجلینا نے قدرت کے ہاتھوں سے بنے اس مجسمے کو ”امید کی شہزادی‘‘ (Princess of Hope) کا نام دیا۔ آج یہ نام زبان زدِ عام ہے اور لوگ امید کی اس شہزادی کو دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے ہیں اور تصویر کھنچوائے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔ انجلینا جولی کو پاکستان میں ایک دوست کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس کی محبت پاکستان سے ہے یا انسانیت سے‘ یہ تو وہی جانتی ہے۔ انجلینا چار بار پاکستان آئی اور ہر بار واپس چلی گئی لیکن پاکستان اس کے دل سے نہیں گیا۔ اس بار 2022ء میں تباہی اور بربادی کی خبر اس تک پہنچی تو وہ ایک بار پھر یہاں پہنچی۔ سیلاب متاثرین کے ساتھ اظہارِ محبت کے لیے۔ دنیا کو بتانے کے لیے کہ انسانیت کسے کہتے ہیں۔ اگر کوئی اجازت دے تو بحیرۂ عرب کے کنارے کسی مضبوط چٹان پر ایک مجسمہ‘ انجلینا جولی کا بھی بنا دیا جائے اور اس پر موٹے حروف سے لکھ دیا جائے کہ ”انسان سے محبت سب سے بڑا مذہب ہے اور میں انجلینا جولی‘ صرف اس مذہب کی داعی ہوں‘‘۔ یہ اعتراف ہوگا اس عورت کی خدمات کا جو ایک یتیم بچی کو گود میں لے کر اس کی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کے روتی رہی۔
ہم نے بھی امید کی شہزادی (Princess of Hope) کے سامنے تصویر بنائی۔ اس بار انجلینا بلوچستان نہیں آسکی۔ کراچی سے سیدھی دادو گئی اور متاثرین کا ہاتھ تھام کر حوصلہ بڑھاتی رہی۔ اس بار وہ پاکستان میں کسی اہم شخصیت سے بھی نہیں ملی۔ کیوں ملتی وہ کسی صدر یا وزیراعظم سے۔ اسے اپنے گزشتہ سفر کی روداد یاد تھی جس کا ذکر اس نے اقوامِ متحدہ میں پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں بھی کیا اور کہا کہ ایک ایسے وقت جب ایک کروڑ شہری بھوک سے تڑپ رہے تھے‘ اس کے لیے شاہی دسترخوان بچھایا گیا اور ایک بڑا خاندان اپنے مخصوص جہاز میں اسے ملنے اور تحفے دینے کے لیے آیا۔ لوگ اس بے حسی کو بھی مہمان نوازی کا نام دیتے ہیں۔ نہیں جانتے کہ عظمت‘ شہرت میں نہیں‘ اچھے کردار میں ہے‘ انکسار اور ایثار میں ہے۔
کچھ دیر اس مقام پر رُکنے کے بعد ہم پھر سے آگے بڑھے اور مغرب کی نماز سے پہلے اورماڑہ شہر پہنچ گئے۔ یہاں سب سے پہلے مرکزی مسجد میں پہنچے۔ اورماڑہ میں اخوت کا ایک دفتر بھی ہے۔ جہاں کئی سو بلاسود قرضے دیے جا چکے ہیں۔ اخوت کے سٹاف نے بحریہ کے افسران کے تعاون سے ان انتہائی غریب لوگوں کو بلایا تھا جن کا بارش میں ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ لوگوں سے ملاقات بھی ہوئی اور گفتگو بھی۔ لوگوں سے ملنے کے بعد ایک مختصر سی گفتگو اخوت سٹاف کے ساتھ بھی ہوئی۔ بلند فکر‘ بلند ہمت اور مخلص۔ اکثریت سٹاف تو مقامی تھا لیکن ان میں سے ایک ملازم کسی اور صوبے کا رہنے والا تھا اور پچھلے دو سال سے بلوچستان میں اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ یہ بھی ایثار کی خوبصورت کہانی ہے کہ اپنے گھر سے اتنی دور یہ شخص صرف اس لیے یہاں آیا کہ اسے مواخات کی کہانی کا ایک باب رقم کرنا ہے۔ کسی کو اپنا بھائی بنانا ہے۔ اپنے بھائیوں کی خدمت کرنی ہے۔ خدمت کا یہ جذبہ دیکھ کے مجھے پاک آرمی کے وہ بہادر جوان بھی یاد آئے جنہوں نے ان چٹیل پہاڑوں پر بہادری کی اَن گنت کہانیاں رقم کیں اور پھر ان میں سے کچھ زندگی قربان کرکے اسی خاک میں دفن ہو گئے۔ وہ جو غالب نے کہا:
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
مسجد سے نکل کر ہم نیوی کیڈٹ کالج پہنچے جہاں کالج کے پرنسپل کموڈور مسعود الحسن نے انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ تعارف کے بعد وہ ہمیں اور ریئر ایڈمرل جاوید اقبال کو کالج کے خوبصورت آڈیٹوریم میں لے گئے جہاں پانچ سو کیڈٹ جمع تھے۔ ان میں سے نصف بلوچستان کے تھے اور نصف‘ باقی صوبوں کے۔ بہترین لباس پہنے‘ چاق و چوبند اور خوبصورت۔ مجھے ان سے خطاب کرنا تھا۔ یہ خطاب ہمارے پروگرام کا حصہ نہ تھا لیکن نوجوانوں سے گفتگو کا موقع ملنے پر خوشی ہوئی۔ میرے لیے جو موضوع تجویز ہوا وہ بھی دلچسپ تھا۔ ”لیڈ ر شپ‘‘۔ لیڈر شپ کیا ہے۔ لیڈرز کہاں سے آتے ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ اچھے لیڈرز میں کیا اوصاف ہوتے ہیں۔ یہ موضوع یوں بھی مجھے بے حد پسند ہے۔ لیڈر شپ کے تصور کو‘ نہ ہم نے سمجھا نہ ہمارے لیڈرز نے۔ کیا ہے یہ؟ کوئی جادو‘ طلسم‘ عشق‘ جنون‘ صداقت یا پھر بغاوت اور دیوانگی یا پھر محض ذاتی خواہشات‘ دولت کا حصول اور انا کی تکمیل۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ:
”Leadership is a process of inspiring others to take actions to achieve common objectives”۔
بظاہر یہ ایک مختصر سی تعریف ہے لیکن اس میں اتنے پیغام مخفی ہیں کہ اس پہ ہزاروں صفحات تحریر کیے جا سکتے ہیں۔ لیڈر شپ کا اصل جوہر کیا ہے؟ امانت‘ دیانت‘ صداقت‘ شجاعت‘ سخاوت۔ اقبال نے لیڈر شپ کو امامت کا نام دے کر اس تصور کا مفہوم ہی بدل دیا۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ایک بار امریکہ میں میرے ایک پروفیسر نے کہا تھا کہ لیڈرز کچھ نہیں کرتے۔ صرف دو کام کرتے ہیں‘ پہلا کام تو یہ کہ وہ خواب (Vision) دیکھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس خواب کی تعبیرکے لیے خود کو وقف کردیتے ہیں۔ خواب دیکھنے اور خوابوں کے لیے خود کو وقف کردینے کے لیے امانت‘ دیانت‘ صداقت‘ شجاعت اور سخاوت ہی تو درکار ہے۔ آج ہم اپنے اردگرد دیکھتے ہیں تو یہ خوبیاں خال خال نظر آتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ لیڈرز اللہ کی عطا ہیں۔ یہ انعام کے طور پر دیے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر واپس لے لیے جاتے ہیں۔ کہیں ہم سزا کے دور سے تو نہیں گزر رہے۔ ویرانی سی ویرانی۔ قحط سا قحط۔ بے بسی سی بے بسی۔ بائیس کروڑ کے جم غفیر میں چند لوگ بھی ایسے نہیں جو امامت کے اس تصور پر پورا اتریں جس کی جانب اقبال نے اشارہ کیا۔ ایسی ہی کچھ باتیں میری گفتگو کا حصہ تھیں۔ ایک بچے نے کہا: ایسے رہنما مل جائیں تو کھلے آسمان تلے لوگ یوں بے سہارا نہ ہوں۔ میری نگاہ سیلاب زدگان کی طرف مڑ گئی۔ کاش کوئی ایسا رہنما ملے جو اس خیمے میں رہے جہاں اس سیلاب کے بعد خلقِ خدا کو رہنا پڑا۔ وہی پانی پیے جو ان کو ملا۔ وہی روٹی کھائے جو ان کے حلق سے اتری۔ یہ بارشوں سے متاثر لوگ۔ یہ سیلاب زدگان۔ یہ روتے ہوئے بچے۔ یہ معذور بوڑھے اور ضعیف ماں باپ۔ یہ زچگی سے بدحال بہنیں اور بیٹیاں۔ نیوی کیڈٹ کالج اورماڑہ کا خوبصورت ایوان‘ چمکتی پیشانی اور روشن نگاہوں والے نوجوان۔ چند ہی قدم کے فاصلہ پر خاموش سمندر۔ میرے کانوں میں اقبال کا شعر گونج رہا تھا جو انہوں نے مسجد قرطبہ کے سائے میں بہتے ہوئے دریائے کبیر کے کنارے کھڑے ہو کر کہا:
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
میں بھی آج ایڈمرل جاوید اقبال‘ پرنسپل مسعود الحسن اور سینکڑوں طالب علموں کے ساتھ کھڑا کوئی خواب دیکھ رہا تھا۔ اپنے وطن کی عظمت‘ رفعت اور سربلندی کا خواب۔ لیڈر شپ‘خواب دیکھنے اور تعبیر پانے کا عمل ہی تو ہے۔