30 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 11…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

سیلاب کی صورتحال سے آزردگی بڑھتی رہی۔ اس کے باوجود نیوی کیڈٹ کالج اورماڑہ کے بچوں سے خطاب بہت یاد گار تھا۔ ان میں سے چند بچوں کے خود اپنے گھر زیرِ آب تھے۔ ان کے والدین اور بہن بھائی ایک مشکل وقت سے گزر رہے تھے لیکن وہ اس مشکل کو پسِ پشت ڈال کر پڑھنے میں مشغول تھے۔2013 ء میں بننے والے اس کالج سے اب تک کئی سو طالب علم فارغ التحصیل ہوچکے اور ایک بڑی تعداد بحریہ میں کمیشن بھی لے چکی۔ اس سے نہ صرف بلوچستان کی محرومی میں کمی آئی بلکہ دوسرے صوبوں کے بچوں کی موجودگی سے قومی یک جہتی کے تصور کو بھی مضبوطی ملی۔دوسرے صوبوں سے سینکڑوں افراد اور غیر سرکاری اداروں کا سیلاب کی وجہ سے یہاں آنا بھی اسی یک جہتی کا اظہار تھا۔ آڈیٹوریم سے نکل کر ہم کھانے کے کمرے کی طرف بڑھے۔درو دیوار کو حسنِ ذوق سے سجایا گیا تھا۔ ایک وقار اور تمکنت کا احساس ہوا۔ کھانے کے دوران وائس ایڈمرل جاوید اقبال نے بتایا کہ اورماڑہ میں سمندر کے کنارے طلوعِ آفتاب کا منظر انتہائی قابل دید ہوتا ہے۔ یہ منظر دیکھے بغیر یہاں سے کوئی نہیں جاتا۔ یو ں بھی ہم بچوں کے ساتھ مل کر کچھ نئے منظر دیکھنے کا عہد کرچکے تھے۔ کھانا کھایا‘ چند گھنٹے کی نیند اور علی الصبح پانچ بجے سے پہلے ہم کمروں سے نکل کر سمندر کی طرف رواں دواں تھے۔ وسیع وعریض نیلا سمندر اور ساحل پہ کھڑی ایک کشتی۔ ہم کشتی میں سوار ہوئے اور گہرے سمندر کی طرف نکل پڑے۔ پانچ بج کر بیس منٹ پر سورج طلوع ہونے لگا۔ شفق پر سرخی سی بکھر گئی۔ یوں لگا جیسے پانی سے روشنی ابھر رہی ہو۔ کچھ ہی دیر میں ایک سرخ سا دائرہ سامنے تھا۔ جو ش ملیح آبادی کا شعر یاد آنے لگا :
ہم ایسے اہلِ نظر کو ثبوتِ حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
صبح کا سورج وجودِ حق کی گواہی دے رہا تھا۔ ایڈمرل جاوید نے درست کہا تھا۔ ایسا منظر ہم نے کبھی نہ دیکھا۔ دل کش اور روح پرور۔ یہ خوبصورت لفظ شاید اسی منظر کے لیے تخلیق ہوئے تھے۔ جی چاہاساحل پہ بیٹھ کے طلوعِ صبح کا یہ حسین منظر دیکھتے ہی رہیں لیکن وقت کی طنابیں کھنچی ہوئی تھیں۔ اصل مقصد تو کچھ اور تھا۔ ہلکا سا ناشتہ اور وہیں سے واپسی کا سفر۔ وہی کوسٹل ہائی وے۔ وہی پرانے موڑ اور راستے جہاں سے گزر کے ہم اورماڑہ پہنچے۔
ہمیں ایک بجے سے پہلے کراچی پہنچنا تھا جہاں ڈی جی رینجرز میجر جنرل افتخار حسن سے ملاقات طے تھی۔ پانچ چھ گھنٹے کا یہ سفر بھی یادگار تھا۔سیلاب کی موجودہ صورتحال کے ساتھ ساتھ طوفان‘ سیلاب‘ زلزلوں اور قدرتی آفات کا ذکر چلتا رہا۔ ہم ان سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی کیا وجوہات ہیں۔ سیلاب سے متاثر لوگوں کی مدد اپنی جگہ لیکن اس تباہی کی وجوہات کو سمجھنا اور ان کا حل ڈھونڈنا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔ دوسری اہم بات آفات کی صورت میں فوری ردِ عمل ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مدد اور بحالی کا کام شروع کرنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔اسی لیے مقامی حکومتوں کا قیام ضروری ہے۔ ہر کام اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور‘ پشاور اور کوئٹہ میں نہیں ہوسکتا۔ اختیار کا ارتکاز محرومی کو جنم دیتا ہے اور تاخیر کو بھی۔ اگر مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہو تو جو ذمہ داری غیر سرکاری تنظیمیں اٹھاتی ہیں وہی ذمہ داری شہر‘ تحصیل اور ضلع کی سطح پر مقامی حکومتیں بھی اٹھا سکتی ہیں۔
مجھے اپنے دوست سلمان عابد کی باتیں یاد آنے لگیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں تین طر ز کی حکومتوں کا تصور ہے۔ وفاقی‘ صوبائی اور مقامی حکومتیں۔ پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں تو موجود ہیں مگر مقامی حکومتوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اس امر کے باوجود کہ ہماراآئین ہمیں پابند کرتا ہے کہ ہم مقامی حکومتوں کے نظام کو یقینی بنائیں اور انہیں سیاسی‘ انتظامی اور مالی اختیارات بھی دیں۔ ہم اختیارات وفاقی اور صوبائی سطح پر منجمد کرکے رکھتے ہیں۔ متاثرین کی درست تعداد کا اندازہ اوران کے نقصانات کا تخمینہ لگانا‘ خوراک‘ ادویات اور پناہ گاہوں کی فوری فراہمی‘ لوگوں کو خطرات سے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچانا‘ حادثات سے بہت پہلے جامع منصوبہ بندی۔ یہ تمام امور مقامی حکومتوں کی ذمہ داری کیوں نہیں بن سکتے۔ دنیا بھر میں مقامی حکومتوں کا نظام ہی ہے جو مقامی سطح پر ایک مؤثر حکمتِ عملی بناتا ہے۔موجودہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہم اپنے نظام کی بڑے پیمانے پر اصلاح کریں اور مقامی حکومتوں کے قیام اور ان کی خود مختاری کو یقینی بنائیں۔
یہی باتیں کرتے ہم آگے بڑھتے رہے۔ ایڈمرل جاوید اقبال نے بہت سی باتیں بتائیں۔ انہوں نے بعد میں اپنی لکھی ہوئی ایک تحریر پڑھنے کو دی جس کا عنوان ”پکاوی‘‘ (Peccavi) تھا۔یہ تحریر موجودہ المیہ میں ہماری ناکامی کی اصل تصویر پیش کرتی ہے۔ ”پکاوی‘‘ لاطینی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے معنی ہیں ”ہاں یہ گناہ میں نے کیا‘‘۔یہ دلگداز تحریر بھی اگر کسی کے دل پہ دستک نہیں دیتی تو اس کا مطلب ہے ہم بہت ہی کٹھور اور سنگ دل ہیں یا پھر اپنی مٹی سے محبت ہی نہیں کرتے۔ اس تحریر کا ایک چھوٹا سا اقتباس انتہائی غور سے پڑھنے کے قابل ہے:
“Peccavi”…. When Charles Napier conquered Sindh in 1840, he was reportedly overcome by immense guilt, for it was such a beautiful lush green fertile land. He sent a one word message to the Crown in England to inform about this development… “Peccavi”. The word was of Latin language, an extract of ancient Bible text, which literally meant… I have “Sinned”. Today, having seen this beautiful land and its people suffer, inundated under tons of water since weeks, we the modern dwellers having failed to develop a reasonable means of Flood protection and drainage system given years of experience before us, can only say one word… “Peccavi”… We are sorry… We have “Sinned”. But we have the power to Heal too…
میں نے ایڈمرل جاوید اقبال کی یہ تحریر پڑھ کر بمشکل اپنے آنسوؤں کو روکا۔ہم اتنے علم اور اتنی فراست کے باوجود کتنے کم فہم نکلے۔ پانی کا ذخیرہ ہی نہیں کرسکے۔ ہم نکاسیٔ آب کا نظام ہی نہیں بنا سکے۔ہم گناہ گار نہیں تو اور کون گناہ گار ہے۔ میں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور آخری فقرہ دہراتے ہوئے کہا‘ ہاں ہم مسیحا بن سکتے ہیں۔ ہم زخموں پہ مرہم رکھ سکتے ہیں لیکن کچھ دیر بعد۔ کچھ دیر بعد‘ جب وہ لوگ جنم لیں گے جو امامت کے تصور میں رنگ بھر سکیں۔میرا اشارہ پاکستان نیوی کیڈٹ کالج اور ایسے ہی بہت سے اور اداروں کی طرف تھا جہاں ایک خوبصورت پاکستان طلوع ہو رہا تھا۔
پانچ گھنٹے کا سفر ختم ہوا۔ بلوچستان سے نکل کر ہم سندھ میں داخل ہوچکے تھے۔کراچی کا شور شرابا‘ بے ہنگم ٹریفک‘ ٹرک اور ٹرالے۔ اتھل‘ سدھوری اور اورماڑہ کے معصوم لوگ۔انجلینا جولی کی اعلیٰ انسانی اقدار۔ دور چٹانوں پر کھڑی امید کی شہزادی (Princess of Hope) اور پھرکیڈٹ کالج میں تعمیر ہوتا ہوا پاکستان کا مستقبل۔ اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں۔