30 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 12…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
کراچی پہنچتے ہی ہم ڈی جی رینجرز سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے۔ چھٹی کا روز ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے گھر ہی بلا لیا۔ میرے ساتھ جنید اور علیزے بھی تھے۔ وہ دونوں ڈی جی خان اور راجن پور میں بھی میرے ساتھ تھے اور اب سندھ اور بلوچستان کے دورہ میں بھی۔ علیزے کے لیے غربت اور سیلاب کے یہ سارے مناظر ناقابلِ یقین تھے۔ یہ معصوم بچے‘ یہ بے بس بچیاں‘ یہ بے کار نوجوان اور زندگی کے آخری سانس لیتے بوڑھے ماں باپ‘ سماعت اور بصارت سے محروم۔ جھکی ہوئی کمر۔ بڑھاپا تو خود ایک بیماری ہے۔ اس کے علاوہ جو بیماریاں انہیں لاحق تھیں وہ کون شمار کرتا۔ اور پھر ٹوٹے ہوئے گھر۔ بدبو دار پانی‘ مچھر اور مکھیاں۔ علیزے نے یہ روح فرسا مناظر پہلی بار دیکھے تھے۔ یہی تو دکھ ہے۔ ہمارے بچے غربت اور افلاس کے ان مناظر سے کتنی دور رہتے ہیں۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ آدھے سے زیادہ پاکستان کس حالت میں رہتا ہے۔
رینجرز ہاؤس میں بہت تپاک سے خوش آمدید کہا گیا۔ جنرل افتخار اور ان کی اہلیہ کی مہمان نوازی اور سادگی۔ ایسے شائستہ لوگ بہت کم نظر آتے ہیں۔ ہمارے علاوہ یحییٰ چاولہ بھی تھے جو ساحل فاؤنڈیشن کے ٹرسٹی بھی ہیں اور خدمت کے جذبے میں کہیں آگے۔ موجودہ سیلاب کے بارے میں باتیں ہوئیں۔ دکھ‘ درد اور آنسو۔ جنرل افتخار نے ہمیں پاک فوج کی انتھک کوششوں سے آگاہ کیا۔ بہت سے لوگوں کو ان قربانیوں کی خبر ہی نہیں۔ اخوت کے بلاسود قرضوں کا ذکر آیا تو انہوں نے ان مصیبت زدوں کی بات بھی کی جو سندھ کے مختلف شہروں میں سود خوروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دس‘ بارہ یا پندرہ فیصد نہیں‘ سو سے دو سو فیصد سالانہ تک سود ادا کرتے ہوئے یہ بے کس لوگ۔ اس قدر سود دینا تو دور اس کے بارے میں بس سوچنے سے ہی وحشت ہونے لگتی ہے۔ ان سینکڑوں مجبور گھرانوں کو اس لعنت سے بچانے کا بھی عزم ہوا۔ جنرل افتخار اب اس عہدے سے سبکدوش ہوکر کسی بڑے منصب پہ فائز ہونے والے ہیں۔ ہمیں یقین تھا وہ جہاں بھی جائیں گے فرض شناسی کی نئی کہانی رقم ہوگی۔ رینجرز ہاؤس سے نکل کر ہم سیدھا ایئرپورٹ پہنچے۔ نذیر تونیو اور این جے وی ٹیم سے ملنے کا وقت نہ تھا۔ میں ان بچوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا جو چُوڑ جمالی سے لے کر شاہ بندر تک ہمارے ساتھ رہے۔ درد میں ڈوبے ہوئے مناظر دیکھ کے انہوں نے بارہا عہد کیا کہ اس غربت اور افلاس کو مٹا کے دم لیں گے۔ جہاز میں سوار ہونے تک میں ان کے اس عہد کو یاد کرتا رہا۔ مجھے یقین ہے یہ عہد ضرور پورا ہوگا۔ اخوت این جے وی محض ایک سکول نہیں‘ ایسی درس گاہ ہے جہاں تربیت کے ساتھ درد مندی کا سبق بھی دیا جاتا ہے۔ شاہینوں کا یہ نشیمن نیوی کیڈٹ کالج اورماڑہ سے کم نہیں۔
جہاز میں سوار لوگ اپنے اپنے خیالوں میں گم تھے۔ آج کا دن کیسا گزرا۔ واپسی میں تاخیر کیوں ہوئی۔ کل کیا کرنا ہے۔ ان میں سے کئی ایک وطنِ عزیز پہ ٹوٹی اس قیامت کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے جس نے ایک تہائی پاکستان کو مصیبت کا شکار کردیا۔ میرے ذہن پہ بھی یہی کچھ سوار تھا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ جو کچھ میں نے ان چند دنوں میں دیکھا اسے رقم ہونا چاہیے۔ آہوں کی یہ کہانی اور بربادی کا یہ قصہ۔ اس کی خبر اور لوگوں کو کیوں نہ ہو۔ نالۂ نیم شب اور آہِ شام و سحر۔ اس کی گونج ہر کان تک جانی چاہیے۔ یقینا یہ سب کچھ پڑھ کر بہت سے دل آزردہ ہوں گے لیکن کیا خبر یہ آزردگی کسی کو عمل کا راستہ دکھا دے۔ کوئی ان غموں کو دور کرنے کے لیے چل نکلے۔ ایک سے دو‘ دو سے چار۔ ایک کارواں سا بن جائے۔ کارواں یونہی بنتے ہیں۔ تبدیلی اسی طرح آتی ہے۔ میں نے بیگ کھولا‘ کاغذ اور قلم نکالا اور کچھ لکھنے لگا۔ لیکن یہ سب لکھنا کیا آسان تھا۔ کسی کے لٹنے کی کہانی‘ کسی کے ڈوبنے کا منظر‘ کسی کی بے بسی کی داستان۔ آنکھ جو منظر دیکھتی ہے وہ منظر الفاظ میں منتقل کرنا کتنا مشکل ہے۔ شاید وہ لفظ ہی نہیں بنے جو غربت زدہ اور افلاس کے مارے ان لوگوں کی باتیں بتا سکیں جن سے مل کر ہم آرہے تھے۔ انگلیاں فگار اپنی‘ خامہ خونچکاں اپنا۔ بہت کوشش کی لیکن بات نہ بنی۔ کچھ نکات البتہ ضرور لکھ پایا لیکن معصوم بچوں کی اداس نظریں۔ میں انہیں کیسے بیان کرتا۔ یہ سوچ کر لکھنا بند نہ کیا کہ شاید قلم رواں ہو جائے اور یہ نکات کہانی بن جائیں۔ سنی سنائی باتوں میں وہ تاثر نہیں ہوتا جو آنکھوں دیکھی کہانی میں ہوسکتا ہے اور یوں بھی تاثیر لفظ میں نہیں کسی کی عطا میں ہے۔ سارا سفر یہی کچھ سوچتا رہا کہ جو بلندیوں پہ رہتے ہیں وہ نیچے رہنے والوں کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ بالآخر لاہور پہنچنے کا اعلان ہوا۔ دو دن کی اس روداد کو پھر سے یاد کیا۔ نگاہوں کے آگے ساری تصویریں گھومنے لگیں۔ چُوڑ جمالی‘ شاہ بندر‘ سجاول‘ ٹھٹھہ‘ لسبیلہ‘ اتھل‘ سدھوری‘ اورماڑہ… میرے وطن کے دور دراز پسماندہ علاقے جہاں زندگی بہت تلخ ہے۔ نہ سکول‘ نہ ہسپتال‘ نہ سڑک۔ زندگی یہاں حسن وجمال کا مرقع نہیں بس ایک تہمت ہے۔ داغِ تنہائی اور بے بسی۔ جہاں اس بار موسم کی سختی اور بارشیں سب کچھ بہا کے لے گئیں۔ نہ جانے کہاں سے فیضؔ کی بھولی بسری نظم یاد آنے لگی:
اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج‘ نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا‘ ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی‘ سخت گھڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
”ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے‘‘۔ یہی مصرع بار بار دہراتے ہوئے ہم جہاز سے باہر نکل رہے تھے۔
لیکن ہمت اور جینے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ دکھ کا بوجھ ساری عمر تو نہیں اٹھایا جاتا۔ ”ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی کے ساتھ نہ ہو۔ ہمارے ملک میں دولت کی کمی نہیں۔ انصاف کے دعوے بھی ہیں۔ قانون بھی موجود ہے لیکن ہم ان سب سے محروم ہیں۔ قانون اور انصاف کی چھتری ہمیں اس بربادی سے بچا سکتی تھی۔ ہر سال ارب ہا روپے ہماری غربت اور ترقی کے نام پر خرچ ہوتے ہیں لیکن ہمیں کیا ملتا ہے۔ نجانے یہ پیسے کس کی جیب میں جاتے ہیں۔ چند سال بعد آنے والا ہر سیلاب کیا صرف ہمارے لیے ہے۔ اس تباہی کا نشانہ ہم ہی کیوں بنتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے قصبے یہ دور دراز دیہات۔ ہمارے بچے تو خواب بھی نہیں دیکھتے۔ نسل در نسل غربت ہی غربت‘‘۔ یہ تھیں وہ باتیں جو ہم نے گزشتہ چند دنوں میں سنیں۔ یہ روداد انہی باتوں کا بیان ہے۔