30 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 13…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

ہاں جینے کے لیے ہمت درکار ہے۔ ہاں دکھ اور خوشی زندگی کا حصہ ہیں۔ زندگی البتہ ہر انسان کے لیے مختلف کیوں ہے؟جن لوگوں سے ہم مل کے آئے ان کی زندگی کسمپرسی کا شکار ہے۔ اب تو سیلاب ہے لیکن اس سے پہلے کچے گھر ‘ کچی گلیاں ‘ نہ صاف پانی ‘ نہ پوری روٹی۔ خستہ تن‘ خستہ حال۔ بیماری سے چور۔ نہ سکول ‘ نہ ہسپتال ‘ نہ کوئی شاہراہ اور نہ آمدورفت کا ذریعہ۔ عورتوں کو بچے جنم دینے ‘ صبح سے شام تک مشقت کرنے اور ساس ‘ سسر اور خاوند کی خدمت کرنے کے سوا کوئی کام نہیں۔ اپنے لیے تو ان کے پاس ایک لمحہ بھی نہیں بچتا۔ انہیں کچھ کہنے کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔
اور مرد ‘ کچھ نکمے ‘ کچھ نشہ کے عادی۔ دن کا کچھ حصہ کام کیا اور باقی نشہ میں گزار دیا۔ ہم گزشتہ پچیس برس سے ان خستہ حال بستیوں میں گھوم رہے ہیں لیکن اس سیلاب نے تو محرومی کی ایک نئی جہت کو بے نقاب کردیا۔ زمین بنجر ہوئی جاتی ہے۔ وہ جو کبھی شجر تھے اب نظر نہیں آتے۔ ان پر بیٹھنے والے پرندے نجانے کہاں ہجرت کر گئے۔ ان کی چہچہا ہٹ اور سریلے نغمے بھی سنائی نہ دیے۔ نہ کوئی پھول ‘ نہ خوشبو ‘ نہ مہک۔ ہر طرف گندے اور بدبو دار پانی کا سمندر۔ ان پر تیرتے ہوئے پلاسٹک کے لفافے اور بوتلیں۔ بستیوں کی ساری گندگی پانی کے وسیع و عریض جوہڑ پہ تیرتی نظر آئی۔ نہ کوئی کنواں ‘ نہ کوئی چشمہ۔
جنوبی پنجاب ‘ سندھ اور بلوچستان کے بعد کچھ روز ابھی لاہور گزارنا تھے۔ جنہیں مشکل میں دیکھ کے آئے ان کے لیے کیا کرنا ہے۔اخوت ٹیم کے ساتھ طویل گفتگو۔ اسی دوران ایک بحث سننے کو ملی۔ ماحولیات کے ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ جو کچھ ہوا۔ اتنے وسیع پیمانے پر سیلاب اور بارشیں‘ یہ سب ترقی یافتہ اقوام کا کیا دھرا ہے۔ یہ سب گرین Affect ہے۔ کئی سو سال تک یورپی اقوام نے ہمیں اپنا غلام بنا کے رکھا اب ترقی کے نام پر ہمیں ماحول کا غلام بنادیا ہے۔
سیلاب صرف ہمارے ہاں نہیں آتے۔ بارشیں صرف ہم پر نہیں برستیں ‘ یہ سب دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ اثر جس خطہ میں ہورہا ہے ہم اسی خطہ کا حصہ ہیں۔ دنیا میں ہر سال 25 کروڑ سے زیادہ افراد سیلاب کا نشانہ بنتے ہیں۔ جان ‘ مال‘ زراعت‘ صنعت‘ گھر بار‘ مویشی سب کچھ بہہ جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم سالانہ نقصان 500 بلین ڈالرز سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان تمام ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں سیلاب ‘ بارشیں اور دیگر آفات سب سے زائد رونما ہوتی ہیں۔ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ چین اور ویت نام کے بعد پاکستان کا نمبر پانچواں ہے۔ کچھ ممالک خوابِ غفلت سے جاگ چکے ہیں اور ہم ابھی لمبی تان کے سورہے ہیں۔ شاید ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ہاں سینکڑوں گلیشیر اور سینکڑوں جھیلیں ہیں اور پھر دریا اور ندی نالے جواِن کا پانی سمیٹنے کے قابل نہیں رہے۔ ان کا دامن محدود ہے اور ان میں پہاڑوں سے آکر شامل ہونے والا پانی کہیں زیادہ۔ درجہ حرارت میں کم از کم ایک ڈگری کا اضافہ۔ اس کے نتیجہ میں گلیشیرز سے پانی کا پگھلنا۔ جب یہ پانی بارشوں سے ملنے کے بعد نشیب کی طرف بہتا ہے تو دریا ابلنے لگتے ہیں۔ ساحل پہ آباد بستیاں لہروں اور منہ زور پانی کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ‘ ہرروز بارشوں اور مون سون کی اکثریت۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ مستقبل میں یہ مشکل کتنی بڑھ سکتی ہے۔
سب سے پہلی تدبیر تو یہ ہے کہ ہم اس مسئلہ کا ادراک کرتے ہوئے اپنے وسائل کی ازسر نو تقسیم کریں۔ کب تک بڑے شہر ہی مرکز ِ نگاہ رہیں گے۔ کوئی حکومت کو بتائے کہ سیلاب سے بچنے کے لیے خرچ ہونے والا ایک ڈالر اڑھائی سو ڈالر کے نقصان سے بچاتا ہے۔ کون احمق ہے جو ایک ڈالر خرچ کرکے اڑھائی سو ڈالر بچانا نہیں چاہے گا۔ ہمارے لیے چین کی حکمتِ عملی کا مطالعہ ہی کافی ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تین حصے ہیں: Prevention ‘Protection اور Preparedness۔ Prevention سے مراد ہے کہ ان علاقوں سے دور رہیں جو سیلاب کی زد میں ہیں اور ان اقدامات کا آغاز کریں جو ماحولیاتی تبدیلی کو روک سکیں۔ Protection کا مطلب یہ ہے کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافہ کریں۔ چھوٹے چھوٹے ڈیم اور آبی ذخیرے بنائیں۔ دریاؤں کی صفائی اور ان کی چوڑائی میں اضافہ کریں۔ ایسی نہروں کی کھدائی جو گہری بھی ہوں اور جن کی گنجائش بھی زیادہ ہو۔ پرانے نہری نظام کی مرمت اور تعمیرِ نو۔ نہروں کی صفائی (Desilting) اور درختوں کو کاٹنے سے بچانا۔ ماحول سے دشمنی نہ کریں دوستی کریں۔ تیسری شے ہے Preparedness لوگوں کو آفات سے نمٹنے کی تربیت دیں۔ ابتدائی حفاظتی اقدامات سے آگاہ کریں۔ انہیں بتائیں کہ سیلاب آجائے تو کیا کرنا ہے۔ ان کے گھروں کی تعمیر ایسے ہو کہ وہ بارش میں ریت کے گھر وندوں کی طرح گرنے نہ لگیں۔ لوگوں کو ان علاقوں سے دور لے جائیں جو پانی سے ہر سال متاثر ہوتے ہیں۔ نئی بستیاں ‘ نئے گاؤں۔ ریاست کے اداروں اور لوگوں کے تعاون سے بھی تو کوئی حکمتِ عملی بن سکتی ہے۔ سنا ہے سکھر بیراج کی عمر پوری ہونے والی ہے۔ ہمیں ایسے کئی اور بیراجوں کو ازسر نو تعمیر کرنا ہے ورنہ ان سے ہونے والے نقصان کی صورت میں بربادی کا تصور ہی محال ہے۔
اس حکمتِ عملی کی تیاری تو اہلِ اقتدار کی ذمہ داری ہے۔”مٹی پاؤ حکومت تے سرجی‘‘ مجھے ایک دوست کا کہا ہوا فقرہ یاد آنے لگا۔ ہماری توجہ ایک بار پھرحکومت کے بجائے اپنے کام کی طرف مبذول ہونے لگی۔ ابھی توان لوگوں کو محفوظ بنانا ہے جو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ جو ہماری ماضی کی غلطیوں کا نشانہ بنے۔ کم فہمی‘ کم نصیبی‘ کج روی۔ اچانک میر ی نگاہوں میں پھر سے کچھ منظر ابھرنے لگے۔ کچھ تلخ یادیں۔میں اس ماں کو کیسے بھولوں جو مجھے کہنے لگی: یہ جو بڑا سا میدان ہے اس میں میرا بیٹا دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اچانک پہاڑوں کی طرف سے پانی آیا اور وہ سب اس پانی میں گم ہوگئے۔ مجھے علم ہے چند دن بعد یہ پانی واپس لوٹ جائے گا اور میرا بیٹا ہنستا کھیلتا میرے پاس واپس لوٹ آئے گا۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ اس کی یہ امید پوری نہیں ہوگی۔ اس کا بیٹا اب واپس نہیں لوٹے گا۔ میں اس بھائی کی آنکھوں میں بے بسی کا منظر کیسے بھولوں جس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی بہن کا بازو مضبوطی سے تھام رکھا تھا لیکن پانی کی منہ زور لہریں اس کی گرفت سے طاقتور نکلیں اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے گئیں۔ ان بچوں کی آنکھوں میں ٹھہرا وہ منظر جنہوں نے اپنے ماں باپ اور بھائی کو پانی میں ڈوبتے دیکھا۔ وہ بوڑھا باپ سوائے پکارنے کے کچھ نہ کر سکا جس کی زندگی کا واحد سہارا ظالم لہریں چھین کے لے گئیں۔ وہ کمسن بچہ جو چھت کے ملبے تلے دب گیا اور پھر اٹھ نہ سکا۔ ہمیشہ کے لیے معذور ہوگیا۔ قریبی ہسپتال والے کہتے ہیں کراچی لے جاؤ۔ کراچی کون لے کے جائے۔ نہ رستہ ‘ نہ رہبر ‘ نہ زادِ راہ۔ چند روز تک علاج نہ ہوا اور معذوری مقدر بن گئی۔ سیلاب کا یہ تحفہ عمر بھر ساتھ رہے گا۔