27 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 15…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
میری گفتگو جاری رہی۔ کچھ لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرنے لگیں لیکن مجھے ابھی کچھ اور کہنا تھا۔
خواتین و حضرات!
سیلاب اور سیلاب زدگان کی بات آتی ہے تو سوچ کے کئی دروازے کھلتے ہیں۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں اور شاید درست کہتے ہیں کہ ہمارے مسائل معاشی نہیں اخلاقی اور روحانی ہیں۔ ہم محبت نہیں کرتے۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں‘ ہم دغا دیتے ہیں‘ ہم پورا نہیں تولتے۔ ہم بھائی کو بھائی نہیں سمجھتے۔ ہمارا ہمسایہ بھوکا ہے اور ہم جی بھر کے کھانا کھاتے ہیں۔ ہمارے حکمران بھول گئے کہ دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا سویا تو ذمہ دار ہم ہیں۔ اس معاشی ناہمواری میں اخوت ایک نیا تصور اور نیا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ ہم Have اور Have notsکے درمیان وہ رشتہ بننا چاہتے ہیں جس کا نام مواخاتِ مدینہ ہے۔ نبی پاکﷺ نے کہا کہ اگر معاشرے میں آدھے لوگ خوشحال ہیں اور آدھے لوگ خوشحال نہیں اور ان کے درمیان بھائی چارے کا رشتہ قائم ہو جائے تو معاشرہ خوبصورت ہو سکتا ہے۔ ہمارا پیغام مواخات اور بھائی چارے کا وہی رشتہ ہے جو انصار اور مہاجرین میں قائم ہوا جس نے مدینہ میں ایک نئے سماج کو جنم دیا۔
کئی سیلاب آئے‘ گزر گئے‘ یہ بھی گزر جائے گا لیکن جب تک وہ رشتہ قائم نہیں ہوگا‘ جب تک ہم اس معاشرے کو مواخات کے اصول پر ترتیب نہیں دیں گے‘ اپنی سوچ اور فکر میں اس بنیادی تصور کو جگہ نہیں دیں گے‘ ہم کسی طوفان‘ کسی سیلاب کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ہم اخوت کے تحت یہی کچھ کر رہے ہیں۔ آج سے نہیں‘ اکیس برس سے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ کم از کم دس ہزار لوگوں کے گھر بنائیں یعنی ان سے مواخات کا رشتہ قائم کریں۔ ہم صرف دینے کی بات نہیں کرتے ہم لوگوں کو عزتِ نفس کا سبق بھی یاد دلانا چاہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ وہ کشکولِ گدائی اٹھا کر کسی کے دروازے پہ جائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم ان سے دوستی کریں۔ انہیں قرضِ حسن دیں۔ ایک لاکھ روپیہ پیش کریں اور کہیں کہ تم ایک ہزار یا دو ہزار روپے مہینہ واپس دے دینا تاکہ تمہیں یہ احساس نہ ہو کہ تم بھکاری ہو۔ ہم کیوں غیروں سے مانگتے ہیں۔ ہم کیوں بین الاقوامی اداروں کے پاس جا کر جھولی پھیلاتے ہیں۔ ہماری عزتِ نفس کو کیا ہوا۔ پاکستان میں غربت ہے تو پاکستان کو ہی اس کا حل ڈھونڈنا ہے۔ اس سیلاب میں ایک کروڑ لوگوں کا نقصان ہوا‘ اکیس کروڑ لوگوں کا نقصان تو نہیں ہوا۔ کیا اکیس لوگ ایک شخص کو اپنا بھائی نہیں بنا سکتے؟ اگر نہیں بنا سکتے تو پھر اس نشست‘ اس محفل کا کوئی فائدہ نہیں۔ پھر چارہ گری کی ساری کہانی جھوٹ‘ دھوکا اور طفل تسلی ہے۔
کرنے دیں حکومتوں کو جو کرتی ہیں۔ بانٹنے دیں جو وہ بانٹتی ہیں۔ مانگنے دیں انہیں دنیا سے جو مانگنا ہے۔ جھکنے دیں انہیں جہاں جہاں جھکنا ہے۔ میں تو صرف یہ کہتا ہوں کہ بائیس کروڑ کی آبادی میں صرف ایک کروڑ افراد ہر روز سو روپے صدقہ دیں تو ایک ارب روپیہ بنتا ہے ایک شام کا۔ تین سو پینسٹھ ارب روپے بنتے ہیں ایک سال کے۔ صرف ایک سو روپے سے۔ ایک سو روپیہ۔ آپ اسے تین سو پینسٹھ نہیں تین سو پچاس ارب ہی سمجھ لیں۔ آپ جانتے ہیں اس کی کیا وقعت ہے۔ وہ تین سو پچاس ارب پچاس لاکھ گھرانوں میں‘ جن کے افراد کی تعداد چار کروڑ بنتی ہے‘ آپ تقریباً ایک لاکھ کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں۔ پھر اگلے سال‘ پھر اگلے سال۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب کی مشکل حل ہو جائے گی۔ کوئی چھت کے بغیر نہیں سوئے گا اور کوئی بھوکا رہنے کی شکایت نہیں کرے گا۔ یہ ہے مواخات کا تصور اور اس کی برکت۔ مملکتِ خداداد پاکستان‘ جس میں پچھتر برس پہلے لٹے پٹے اور تہی دامن مہاجرین آئے اور پھر کروڑوں‘ اربوں پتی بن گئے۔ کیا ایک کروڑ شخص بھی ایسے نہیں جو سو روپے روز دے سکیں۔ اس سے ہم نصف کروڑ گھرانوں کو کئی لاکھ فی گھرانہ پیش کر سکتے ہیں۔ یہ بے گھر لوگ کہتے ہیں کہ انہیں تو ایک لاکھ روپیہ چاہیے‘ ڈیڑھ لاکھ روپیہ چاہیے۔ ہمیں تو اور کی طلب ہی نہیں۔ ان بارشوں نے گھر گرا دیے ہیں‘ شہتیر باقی ہیں‘ دروازہ باقی ہے‘ کھڑکی باقی ہے۔ ہم نے تو صرف دیواریں کھڑی کرنی ہیں۔ آ پ نے وہ گھر دیکھے ہی نہیں جو ایک لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپے میں بنتے ہیں۔ یہ رقم ہم ان کو دیں‘ گھر کی تعمیر کے لیے اور باقی رقم دیں زراعت کے لیے‘ مال مویشی کے لیے‘ کاروبار کے لیے۔ بھیک نہیں قرضِ حسن۔ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا قرضِ حسن۔ جس کی رقم کروڑوں لوگوں میں گردش کرتی رہے۔ ایک کروڑ گھرانوں کو بحال کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ سارے دکھ لادوا نہیں ہوتے۔ دکھ تو بس یہی ہے کہ ہمیں مسیحائی سے انکار ہے۔ میری باتیں دل پہ دستک دے رہی تھیں لیکن کب تک دستک دی جائے۔ بالآخر خاموش ہونا پڑتا ہے۔ غالب کی یاد تازہ ہوئی:
نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن
مواخات مگر نغمۂ غم نہیں نغمۂ امید ہے۔ ”مواخات کی خوبصورت روایت غربت کے خاتمے کا واحد راستہ ہے‘‘۔ میں ایک لمحے کے لیے رکا اور پھر سے مواخات کی بات کہی۔
”یہ راستہ کسی اور نے نہیں‘ اللہ کے نبیﷺ نے بتایا اور پھر عمل کرکے سچ بھی ثابت کیا۔ یہاں جتنی تنظیمیں موجود ہیں انہوں نے غیر معمولی کام کیا ہے۔ وہ سب مواخات ہی کی علمبردار ہیں۔ ان تنظیموں کے رضاکاروں کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ چلچلاتی ہوئی دھوپ میں‘ گندے گہرے پانیوں میں‘ لوگوں کے زخموں پہ مرہم رکھتے ہوئے۔ وہ لوگ جو اپنے گھروں میں آرام سے سوتے ہیں۔ خدا انہیں کسی طوفان سے آشنا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ان کے رزق میں وسعت دے لیکن یہ کون لوگ ہیں جو کسی کے دکھ کو دور کرنے گھروں سے نکل پڑے۔ نہ کھانے کی پروا‘ نہ پینے کی۔ جہاد اور کیا ہے۔ کیا ہم بھول گئے جو خدائے ذوالجلال نے کہا: جس نے ایک شخص کی زندگی بچائی اس نے پوری کائنات کو بچا لیا۔
خواتین و حضرات!
پاکستان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے توسط سے صرف ایک ہی درخواست ہے کہ آپ ہر روز ایک سو روپیہ صدقہ دیں۔ ایک لاکھ آدمی دے دیں‘ دس لاکھ آدمی دے دیں‘ ایک کروڑ یا دو کروڑلوگ دے دیں۔ یہ بھی نہیں کہ آپ نے صرف کسی مخصوص ادارے کو دینا ہے۔ اس ادارے کو دیں جس پہ آپ کا دل آجائے۔ جس سے آپ مطمئن ہوں۔ ہر ادارہ خوبصورت کام کرتا ہے۔ ہر ادارہ امانت اور دیانت کی مثال ہے۔ ہر ادارہ نیکی اور تقویٰ میں آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ یہ لوگ جو ہمارے روبرو ہیں انہوں نے اپنا دل بچھا کے رکھ دیا۔ آپ یقین کیجئے کہ کئی جگہوں پہ دو دو ماہ کا راشن لوگوں کے پاس پہنچ گیا ہے۔ کھانے کی کمی نہیں ہوئی۔ الحمدللہ! صرف ان اداروں پہ کیا موقوف ان شہروں اور قصبوں کے رہائشیوں نے بھی دن رات کام کیا جن کے قرب و جوار میں یہ آفت آئی۔ اب صرف چار چیزیں ہیں جو ہمیں کرنی ہیں۔ صرف چار۔