27 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 16…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
وہ چار چیزیں کیا ہیں؟سب سے پہلے گھر بنانا ہے۔ لاکھ روپے کا یاڈیڑھ لاکھ روپے کا۔ اس سے زیادہ پیسے نہیں چاہئیں غریب آدمی کو۔دوسرے نمبر پر مال مویشی کے لیے کچھ رقم دینی ہے۔ کل ہی ایک شخص نے کہا کہ میں آسٹریلیا سے دس ہزار آسٹریلین بھیڑیں بھیجتا ہوں۔ نئی نسل ‘ زیادہ دودھ‘ زیادہ گوشت‘ کم لاگت۔ گھراور مویشی کے بعد تیسری چیز زراعت کے لیے بلاسود قرضے جن کی مالیت فی گھرانہ چالیس‘ پچاس ہزار یا ایک لاکھ روپے سے زیادہ نہیں۔ اور چوتھی چیز کسی گھرانے کا چھوٹا سا کاروبار ہے۔ اسے اگر پچاس ہزار یا ایک لاکھ روپے مل جائیں تو وہ بیس ہزار یا تیس ہزار روپے مہینہ کما لے گا۔اس پر مستزاد ہر خاندان میں سے ایف اے پاس ایک بچہ یا بچی جو یونیورسٹی نہیں جاسکتے آئی ٹی اور فری لانسنگ کا کورس کرلے تو خود بھی اپنے پاؤں پہ کھڑا ہو جائے گا اور کئی ارب کا زرِ مبادلہ کمانے کا راستہ بھی ہموار کردے گا۔ انفرادی غربت کا خاتمہ اور اجتماعی خوشحالی کا آغاز۔ ہر مصیبت ایک نیا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ لوگ کام کرنا چاہیں تو کون ہے جو انہیں آگے بڑھنے سے روک سکتاہے۔
خواتین و حضرات!
یہ امتحان ان کا نہیں جو زیرِ آب ہیں۔ یہ امتحان ہمارا ہے۔ یہ امتحان ان کا ہے جو اپنے اپنے گھر میں خیر و عافیت سے تین وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ ہنستے ہیں‘ مسکراتے ہیں۔ وہ دن بہت دور نہیں جب کسی نے ہم سے پوچھنا ہے کہ میں نے تمہیں دولت دی‘ میں نے تمہیں فہم و فراست دی ‘ میں نے تمہیں اقتدار دیا‘ میں نے تمہیں عہدہ اور مرتبہ دیا‘ میں نے تمہیں دوست دیے ‘ میں نے تمہیں زندگی کی ہر نعمت سے آشنا کیا۔ آج تم میرے پاس کیا لے کر آئے ہو۔ تمہارے دامن میں کوئی ایسا پھول ‘کوئی ایسی کونپل ہے جو مجھے پیش کرسکو۔
امتحان کا یہ دن جو آج ہمارے روبرو ہے اس لمحے کی شرمساری سے بچنے کا موقع ہے۔ صرف سو روپیہ ہر روز۔لاکھوں ‘ کروڑوں روپے جو دینا چاہتا ہے وہ بھی دے۔اپنی ضرورت سے زائد جس کے پاس ہے وہ ضرور دے ۔ اس کے مرتبے اتنے ہی بلند ہوں گے لیکن ہم توصرف ایک سوروپیہ یا سال بھر کے 36500 روپے کا سوال کرنے آئے ہیں۔آیئے ایک تحریک چلائیں کہ ہر شخص ہر روز سو روپیہ صدقہ دے کسی ایک ادارے کو۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ صدقہ مصیبت کے وقت نہیں‘ مصیبت سے پہلے دیا جاتا ہے۔ ہم اگر دینے کی لذت سے آشنا ہو گئے تو ہمیں کسی غیر ملک سے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہمارا سر کسی کے سامنے سرنگوں نہیں ہوگا اور ہم خدا کے حضور بھی اس روز کہہ سکیں گے کہ اے خدا ‘ اے میرے پروردگارمیں نے ایک شخص کو اپنایا تھا۔ میں نے مواخاتِ مدینہ کی درخشاں روایت پر چلنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے انصار اور مہاجر کی اس روایت کو زندہ کیا تھا جو ساڑھے چودہ سو برس پہلے قائم ہوئی۔
خواتین و حضرات!یہی وہ راستہ ہے جو فلاح کی طرف جاتا ہے۔ میں مشکور ہوں کہ آپ سب نے میری بات توجہ سے سنی۔ایک بات یاد رکھ لیجئے کہ سو روپیہ ہر روز کی یہ درخواست آپ چاہیں تو سینکڑوں‘ ہزاروں اور لوگوں سے کر سکتے ہیں۔ ہزاروں کے ذریعے یہ بات لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے اور لاکھوں سے کروڑوں تک پہنچ سکتی ہے۔ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں تک پہنچ سکتی ہے۔ وہ بھی ایک ڈالر ہر روز دیں تو یہ دو سو روپے بن جاتا ہے۔ سنا ہے بیرون ملک ایک کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی آباد ہیں۔کون ہے جو آج کے دو ر میں ایک ڈالر نہ دے سکے۔ چلیں سب نہیں تو آدھے ہی سہی یا پھر ان سے بھی آدھے۔ میں اس درخواست پر معذرت چاہتا ہوں۔ مگر وہ جو غالب نے کہا:
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے!
میں نے جو دیکھا اصل دکھ اور غم وہی ہے۔ وہی سب مجھے بار بار یاد آتا ہے۔ مجھے اس خوف زدہ معصوم بچے کی آنکھیں نہیں بھول رہیں جو ابھی اپنی ماں کو ڈھونڈ رہا ہے۔ مجھے اس ماں کے دکھ کی کیفیت نہیں بھول رہی جو منتظر ہے کہ شاید اس کا بچہ ان لہروں سے نکل کے پھر سے واپس آجائے۔ اس بہن کی آہیں اور گریہ میرے کانوں میں بازگشت بن کے گونجتا ہے جس نے کہا :میرا بھائی میرے پاس کب آئے گا۔ہمیں یہ زخم بھی مندمل کرنے ہیں اور وہ چار کام بھی جو میں نے ابھی گنوائے۔ یہ سب کام آپ نے کرنے ہیں۔ یہ سب کام ہم نے کرنے ہیں۔ پاکستان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک جس کی بنیاد چوہدری محمد سرور نے دس پندرہ سال پہلے کچھ دوستوں کے سا تھ مل کر رکھی اس سلسلہ میں بہت کچھ کرسکتا ہے۔ شروع میں چند ادارے تھے‘ بڑھتے بڑھتے ان اداروں کی تعداد ایک سو نوے سے زیادہ ہو گئی۔ آپ بھی اس میں شریک ہیں۔ یہ ایک قافلہ ہے ‘ یہ ایک تحریک ‘ سوچ اور فکر ہے۔ یہ اپنے حصے کی خوشیاں کسی اور کے نام اور کسی کے غم اپنے نام کرنے کی کاوش ہے۔ ہم پُر امید ہیں اس لیے کہ جہاں ہم نے کسمپرسی دیکھی ہے وہیں امید کی شمعیں بھی نظر آئی ہیں۔ لوگ غمزدہ تو ہیں لیکن کہتے ہیں‘ ہم محنت کریں گے اور پھر سے کامیاب ہوں گے۔ دکھ کے باوجود عزم وہمت کی جھلک دیکھی ہے۔ یہی جھلک ہمیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔ امید کا یہی پیغام میں آپ کو بھی دیتا ہوں۔بس ایک لمحے کے لیے سونے سے پہلے یہ ضرور سوچیے کہ میں ایک آرام دہ بستر پہ سو رہا ہوں اور میرا ایک بھائی خیمے کے بغیر کچے فرش پر بغیر چادر کے مچھروں کے درمیان آج کی رات شاید سو بھی نہ پائے۔
احسان اللہ وقاص ‘ مولانا بشیر قادری‘ گوہر اعجاز اور پھر چوہدری سرور نے بھی راہِ عمل کی طرف آواز دی۔ تقریب ختم ہوئی لیکن ایک نئے عزم کے ساتھ۔ جو کچھ اب تک کیا گیا اس سے بڑھ کر کرنے کا ارادہ ہوا۔ دعاکے لیے ہاتھ اٹھے۔ کسی بھی محفل کا اختتام اگر دعا سے نہ ہو تو وہ محفل رائیگاں جاتی ہے۔مولانا بشیر قادری نے کہا ” اے خدا جو مشکل میں ہیں انہیں مشکل سے نجات دے اور جو مشکل میں نہیں انہیں محفوظ ومامون رکھ۔ اتنی بڑی آفت ہماری زندگی میں نہیں آئی۔ ہمیں اس کے مقابلہ کی توفیق دے‘‘۔د عا ختم ہوئی۔ لوگ رخصت ہونے لگے اور مجھے اپنی گفتگو کے وہ حصے دوبارہ یاد آنے لگے جو مواخات کے بارے میں تھے۔
اس تقریب کے دو دن بعد خیبر پختونخوا کی جانب نکلنے کا فیصلہ ہوا۔ راولپنڈی میں اخوت کے سربراہ میجر (ر)امان اللہ اور جنرل(ر) فیض جیلانی بے چین تھے کہ ہم کب اسلام آبا د پہنچیں اور پھر ضلع سوات کے بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ لاہور سے اسلام آباد اور پھر ان دونوں کی معیت میں خیبر پختونخوا کی جانب اگلا سفر جہاں دریائے سوات ‘ دریائے کالام اور چھوٹے بڑے کئی ندی نالوں نے کہرام مچا رکھا تھا۔