27 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 17…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

رنج کی وہی کیفیت لے کر ہم رات دیر گئے اسلام آباد پہنچے۔ خیبر پختونخوا میں ہمیں تین شہروں اور ان کے گرد کچھ علاقوں تک جانا تھا۔ مدین‘ بحرین‘ کالام اور پھر ان سے ملحقہ چند بستیاں۔اگلے روز علی الصباح ہم اسلام آباد سے نکلے۔ ہمارے ہمراہ اخوت راولپنڈی کے سربراہ میجر (ر)امان اللہ خان اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض جیلانی بھی تھے۔یہ دونوں ان درد مند لوگوں میں سے ہیں جن کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ سراپا اخلاص و ایثار۔ اسلام آباد ابھی خاموش تھا۔ شہراقتدار کے مکین ان پُر زور لہروں کے شور سے بہت دور سکون کی نیند سو رہے تھے‘ جنہوں نے سینکڑوں لوگوں کو بے گھر کردیا۔ جی تو نہیں چاہتا‘ کہنے کو‘ لیکن معین احسن جذبی کا ایک شعر یاد آنے لگا :
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا‘ دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
خدا سب کو محفوظ رکھے۔ کسی کو اس آفت کا سامنا نہ کرنا پڑے جس سے ایک تہائی قوم گزر رہی ہے۔ ساحل پہ کھڑے ہوکر کسی کو ڈوبتے ہوئے دیکھنا نظارہ نہیں المیہ ہے۔ اسلام آباد سے موٹروے اور پھر موٹروے سے اتر کر سوات ایکسپریس وے۔ ہر منظر ایک دوسرے سے بڑھ کر۔ پہاڑوں میں پوشیدہ دلکش راستے‘ الجھے ہوئے موڑ اور سرنگیں۔زندگی بھی تو کچھ ایسے ہی الجھے ہوئے موڑوں کا نام ہے۔ جنرل (ر) فیض نے چکدرہ کے قریب پہاڑ کی اس چوٹی کی طرف اشارہ کیا جسے چرچل پوسٹ کہا جاتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے فاتح اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم ونسٹن چرچل نے کچھ عرصہ اس پوسٹ پر قیام کیا۔ نجانے وہ یہاں کیا سوچتا رہا۔ تدبر۔ تدبر اور تدبر۔ یہی مشقت تھی جس نے اسے عظمت کے مقام پہ پہنچایا۔ کیا اسے علم تھا کہ قدرت اسے کسی بڑے مقصد کے لیے تیار کررہی ہے۔ شاید کسی کو بھی علم نہیں کہ اسے مشکلات کی کٹھن راہوں سے کیوں گزارا جاتا ہے۔ شاید کوئی بڑا کام کسی کا منتظر ہو۔شاید ہم قدرت کے منتخب فرد ہوں۔
چکدرہ‘ مٹہ‘ کبل‘ کانجو سے ہوتے ہوئے اور کسی جگہ بغیر رکے ہم سب سے پہلے مدین پہنچے جہاں اخوت ٹیم کے ارکان سید مہتاب علی اور محسن حفیظ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہلے سے موجود تھے۔ ان دونوں نے ریلیف کے کام کی تفصیلات پیش کیں۔محسن کا کہنا تھا کہ مدین نامی یہ قصبہ سوات میں بحرین روڈ پر واقع ہے اور یہ مینگورہ سے پچپن کلو میٹر کے فا صلے پر ہے۔مدین میں دو دریا بہتے ہیں ایک دریا ئے سوات اور دوسرا دریائے مدین۔ لو گ اسے مدین نالا کے نام سے بھی پکارتے ہیں لیکن ان بارشوں میں یہ محض نالہ نہیں رہا۔ مدین کی کل آبادی بیس سے پچیس ہزارہے۔دو دریا ؤں کے ارد گرد آباد اس علاقہ میں موسم گرما کے دوران ہزاروں سیاح آتے ہیں۔بلند قامت پہاڑ‘ سرسبز وادیاں اور آسمان کو چھوتے ہوئے درخت۔ ہر طرف پھیلا ہوا سبزہ۔ اس علاقہ کی ٹراؤٹ مچھلی بہت زیادہ مشہور ہے۔ سیاحت کے علاوہ لوگ زراعت اور چھوٹے کاروباروں سے منسلک ہیں۔اس علاقہ میں بہت سے باغا ت بھی موجو د ہیں جہاں سے تازہ پھل بھی استعمال ہوتے ہیں اور انہیں خشک کرکے بیچا بھی جاتا ہے۔ اخوت کا دفتر مدین میں 2017ء سے کام کر رہا ہے۔ چھوٹے بلاسود قرضوں کا ایک وسیع سلسلہ۔
حالیہ سیلاب ایک اچانک آفت کی طرح نمودار ہوا۔سیاحوں کی آمد تقریباً سارا سال جاری رہتی ہے۔ دور دراز شہروں خاص طور پر لاہور اور کراچی سے آنے والوں کے لیے یہاں کے موسم میں بہت کشش ہے۔چند روز پہلے ایسی کسی مصیبت کے آثار بھی نہ تھے۔
25اگست کی رات ایک سے دو بجے کے درمیا ن دونوں دریا ؤں میں شدید سیلابی ریلے آئے اور انہوں نے ارد گرد علاقوں کو تباہ و برباد کر دیا۔یہ سیلابی ریلے اپنے اندر ریت‘پتھراور نوکیلی چٹانیں لیے ہو ئے آبادی میں داخل ہوئے۔ پانی تو آبادی سے نکل گیا مگر متاثرہ علاقوں کو ریت اور بڑے بڑے پتھروں سے بھر گیا۔ لوگوں کے مکانات‘کاروبار اور دکانیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔ محسن نے ہمیں ایسی کئی جگہیں دکھائیں جہاں پہلے گھر ہوا کرتے تھے اب چٹیل میدان نظرآرہا تھا۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہاں کبھی کوئی گھر تھے اور درودیوار معصوم مسکراہٹوں سے گونجتے تھے۔قیامت بھی کوئی ایسی ہی گھڑی ہوگی۔
ان سیلابی ریلوں سے اینگر آباد‘چہل‘جرے نامی محلوں کو کا فی نقصان پہنچا۔ یہ سب مدین کے وسط میں واقع ہے۔ اینگر آباد میں گھرا نوں کی کل تعداد ایک اندازے کے مطابق ایک سوپندرہ سے زائد ہے۔ جن کی آبا دی تقریباً ایک ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ ان میں سے اکثرگھروں کی پہلی منزل ریت اور پتھروں سے بھر گئی اور باقی ماندہ گھر اونچا ئی پر واقع ہونے سے سیلابی ریلے سے تو بچ گئے مگر بجلی‘ پانی اور دیگر سہولتوں سے مکمل محروم ہو گئے۔
اخوت کی ٹیم نے جب اینگر آباد کا وزٹ کیا تو تمام راستے ریت اور پتھرو ں سے بھرے ہو ئے تھے۔ پیدل چلنے کا بھی راستہ باقی نہ تھا۔ زندگی کو معمول پر لا نے کے لیے سب سے پہلے راستو ں اور گھرو ں سے ملبے کی صفا ئی اور پینے اور استعمال کر نے کے پانی کی فراہمی کا بندو بست اپنے ذمہ لیا گیا۔ بھاری مشینری کا بندوبست ہوا اور مزدور لگا کر راستو ں سے ملبے کو ہٹا نے کا کام شروع کیا اور اس کے بعد گھرو ں کی صفا ئی اور پانی کی فرا ہمی کو یقینی بنایا۔میں جب ان لوگوں سے ملا تو ان کی آنکھوں میں احسان مندی کے سوا اور کچھ نظر نہ آیا۔ مواخات کی خوشبو ان کو اپنے حصار میں لے چکی تھی۔ اینگرآباد کے قریب ہی ہم نے نماز ادا کی اور سکول کی ایک عمارت میں تین سو سے زائد افراد کو چند ہفتوں کا راشن پیش کیا۔ یہ تمام لوگ غم زدہ ضرور تھے لیکن حوصلہ بھی بلند تھا۔ اخوت کا ایک ملازم ایسا بھی تھا جو پندرہ روز سے شاید ایک لمحہ بھی نہ سویا۔ اپنا غم تو سب کو سونے نہیں دیتا لیکن کسی اور کے غم میں آنکھیں نہ جھپکیں‘ یہی اصل انسانیت ہے۔
مدین سے نکل کر دکھ اور درد کی ایسی کیفیت کے ساتھ ہم نے بحرین کا رخ کیا۔ سڑک ٹوٹی پھوٹی تھی اور دریا کے ساتھ بنی ہوئی عمارتیں تباہی کا منظر پیش کررہی تھیں۔ مختلف غیر سرکاری اداروں کی بے شمار گاڑیاں نظر آئیں۔ ان میں کھانے پینے کا سامان اور ٹینٹ لدے ہوئے تھے۔ بیسیوں رضاکار خدمت کا جذبہ لیے ان میں بیٹھے تھے اور کچھ بحالی کے کام میں مصروف تھے۔ چند لمحوں کے اندر دریانے اس تیزی سے اپنا رخ تبدیل کیا کہ لوگوں کو سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کیا ماجرا تھا۔ دریا کے ساتھ عمارتیں خود سے دریا کا حصہ بن گئیں اور نیچے سے جب مٹی سرکی تو سڑک بھی بہہ گئی۔ ٹوٹی پھوٹی اور شکستہ سڑک پہ سفر کرتے بالآخر ہم بحرین پہنچے جو سیرو سیاحت اور تفریح کا مرکز تو تھا ہی خوشیوں اور مسکراہٹوں کا مرکز بھی تھا لیکن یہ سب چند روز پہلے کی بات ہے۔ اب تو یہاں خوف کے گہرے سائے اور آنسوؤں کے سوا کچھ نہ تھا۔