27 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 18…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

بحرین انگوٹھی میں جڑا کوئی خوبصورت نگینہ ہے۔ سوات کا ایک انتہا ئی خوبصورت سیاحتی اور تجارتی مقام‘ جو مینگورہ سے پینسٹھ کلو میٹر فا صلے پر واقع ہے۔ سیاح جب کا لام کے حسین مناظر کا رخ کرتے ہیں تو بحرین ضرور رکتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو یہیں پر واقع ہوٹلوں کو اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں۔سارا دن ادھر ادھردشت نوردی اور پھر رات کو بحرین کے کسی ہوٹل میں قیام۔اس سیلاب کے دوران بحرین بری طرح متا ثر ہو ا۔ دریا ئے سوات اور اس میں گرنے والے ندی نالوں کے گرد واقع مختلف گاؤں مکمل برباد ہو گئے۔بحرین کے قریب واقع گاؤں چہل‘ شگا ئی‘ مالک آباد‘ پختون آباداور بیر میں مقیم لوگو ں کے گھر اور زرعی زمین سیلابی ریلے میں مٹی کے کھلونوں کی طرح بہہ گئے۔اخوت نے ان تمام علاقوں میں سروے کیا اور بھائی چارے کے دیرینہ رشتہ کے تحت بہت سے متا ثرین کو کیش سہولیات فراہم کیں۔ ان افراد کی نشاندہی کی گئی جن کے گھر بری طرح متاثر ہو ئے اور وہ اخوت سے بلاسود قرض لے کر دوبارہ گھر تعمیر کرنے کے خواہش مند ہیں۔
چھ مقا می افراد پر مبنی ایک کمیٹی تشکیل دی اور یہ فیصلہ ہواکہ ان کی رہنمائی میں ایسے افرادجن کے گھر تباہ ہوگئے ہیں‘ کو گھروں کی تعمیر کے لیے بلاسود قرضہ فراہم کیا جائے گا۔ اس مقا می کمیٹی کے ساتھ مل کر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک سنٹرکا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا جہاں پر طلبہ و طالبات کو فری لانسنگ کے کورسزکروائے جائیں گے۔ہمیں نظر آیا یہاں شرح خواندگی سندھ کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ سیاحوں کی آمدورفت اور Tourist Spotہونے کی وجہ سے غربت بھی کم تھی‘ روزگار کے مواقع بھی تھے۔اگر یہاں آئی ٹی کی تعلیم کو فروغ دیا جائے تو اس علاقے کی خوشحالی میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ مدین اور بحرین میں سارا دن گزارنے کے بعد ہمیں واپس کبل پہنچنا تھا۔ رات کا قیام یہیں تھا۔ پُر فضا مقام پر ایک خوبصورت ریسٹ ہاؤس‘ جس کے بلند قامت درخت رات کے اندھیرے میں بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ کبھی یہ جگہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی پسندیدہ آماجگاہ تھی۔ علی الصباح ہم نے وہ درخت بھی دیکھا جس پر ذوالفقار علی بھٹو کے نام کی تختی آویزاں تھی۔ اس درخت کی عمر پینتالیس برس کے لگ بھگ ہوگی۔ درخت لگاتے ہوئے نجانے وہ کیا سوچ رہے تھے۔ بہت بلند اور گھنے درخت کے سایے میں وہ خواب ادھورے رہ گئے جو انہوں نے اپنے وطن کے لیے دیکھے۔پُر فضا مقام پراگلے روز ہمیں فوج کے ہیلی کاپٹر پر کالام جانا تھا۔ وہاں بذریعہ سٹرک جانے کے راستے ابھی مسدود تھے۔
ہیلی کاپٹر کا انتظام جنرل(ر) جیلانی کی مرہونِ منت ہوا۔ میجر (ر) امان اور جنرل (ر) فیض جیلانی درد مندی کا مرقع ہیں۔ ایک دہائی سے زیادہ ہو گئے اخوت کے ہم سفر بنے۔ وطنِ عزیز میں جب بھی کوئی زلزلہ‘ طوفان یا سیلاب آیا اخوت کا عَلم اٹھائے یہ دونوں سب سے آگے تھے۔ ہمت‘ حوصلہ اور عزم کی بلندی۔ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا :
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
کالام تک کا سفر صرف 46 منٹ کا تھا۔ بلندی سے نیچے منظر کچھ اور ہوتا ہے۔ دریائے سوات اور اس میں گرتے ہوئے بہت سے ندی نالے اور ان کے نواح میں ہونے والی تباہی۔ ٹوٹے ہوئے گھر‘ اجڑی ہوئی فصلیں۔ جو کچھ ہم نے مدین اور بحرین میں دیکھا یہ اس سے مختلف منظر تھا۔ زیادہ اندوہناک اور رلا دینے والا۔ بڑی بڑی عمارتیں اور خوبصورت ہوٹل جہاں کبھی قہقہے بلند ہوتے تھے‘ پانی میں بہہ چکی تھیں۔ زندگی پلک جھپکنے میں اپنا رنگ بدل لیتی ہے۔ نجانے ان ہوٹلوں کو یہاں تعمیر کرنے کی اجازت کس نے دی۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا‘ یہ عمارتیں دریا سے کچھ فاصلے پہ تھیں لیکن اس بار دریا نے اپنا رخ موڑ لیا اور یہ اس کی آغوش میں آگئیں۔ تیز لہروں اور ان میں بہہ کر آتے ہوئے پتھروں نے ان عمارتوں کو ملیا میٹ کر دیا۔ دریا بہر حال دریا ہے۔ اس کی بے رحم موجیں انسان کے اختیار میں نہیں۔ یہ کسی اور کے حکم پہ بہتی ہیں۔ جدھر چاہیں مڑ جائیں‘ جہاں چاہیں طوفان برپا کر دیں۔ ان لہروں کی لگام تو اس ہستی کے ہاتھ میں ہے جو ہر شے کی مالک ہے۔ یہ دنیا‘ یہ کائنات‘ یہ کہکشاں۔یہ لہریں اور ہم سب‘ اسی کے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جسے ہم فراموش کردیتے ہیں۔
بحرین‘ مدین اور ان سے ملحقہ چھوٹے چھوٹے دیہات کو بلندی سے دیکھتے ہوئے ہم کالام کی طرف محوِ پرواز تھے۔ پہاڑیوں پہ سبزہ ہی سبزہ اور جنت نظیر منظر لیکن ان کے دامن میں آہ و فغاں اور بربادی کی ایک داستان۔ جنرل(ر) فیض جیلانی بہت کچھ بتاتے رہے۔ ہم نے اس وقت کو بھی یاد کیا جب سوات میں شورش برپا ہوئی اور یہ پُر امن خطہ دہشت گردی کا شکار رہا۔ سنا ہے اب پھر کچھ لوگ سر اٹھا رہے ہیں۔ وہ جو کسی نے کہا:
“Eternal Vigilance is the price for liberty”
ہیلی کاپٹر میں کچھ ڈاکٹرز اور نرسز بھی تھیں جنہیں کالام میں میڈیکل کیمپ لگانا تھا۔ ہم ان کی طرف داد بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔ کیا ہے وہ جذبہ جو انہیں اپنے بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آمادہ کرتا ہے۔
ہیلی کاپٹر نے زمین کو چھوا۔ ہم سب لوگ باہر اترے اور ان علاقوں کا رخ کیا جہاں ہمیں لوگوں سے ملنا تھا۔ عام طور پر ان دنوں میں بھی اس علاقے میں سینکڑوں سیاح ہوتے ہیں لیکن اس وقت یہاں کوئی سیاح نہیں تھا۔ کچھ لوگ تو بارشوں کے آغاز پر ہی نکل گئے لیکن کچھ لوگ وقت پر نہ نکلے اور پھر سٹرک خراب ہونے اور راستے کے پل ٹوٹنے کی وجہ سے انہیں یہاں محصور ہونا پڑا۔ عبدالقیوم خان نامی ایک شخص نے اپنا خوبصورت ہوٹل دکھایا۔ اس کا کہنا تھا کہ تیس سے زائد افراد جو ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے سڑک ٹوٹنے کی وجہ سے اس کے ہوٹل میں ٹھہرنے پہ مجبور ہوگئے۔ اکیس دن بعد جب سڑک آمدورفت کے قابل ہوئی تو ان کی واپسی ممکن ہوئی۔ یہ اکیس دن وہ عبدالقیوم کے ذاتی مہمان بن کے رہے۔ کھانا‘ پینا سب اس کی طرف سے پیش کیا گیا اور کمروں کا کرایہ بھی وصول نہیں کیا گیا۔ ہم بربادی کی کہانی تو یاد رکھیں گے۔ کچھ لوگوں کی سردمہری بھی ہمیں یاد رہے گی لیکن شاید عبدالقیوم کو بھول جائیں۔حرص اور لالچ کی اندھیری رات میں ایک روشن دیا۔
جہاں ہم بری باتوں کی نشاندہی کرتے ہیں وہیں ہمیں ایثار کی ایسی کہانیاں بھی یاد رکھنی چاہئیں۔ اس ہوٹل میں پشاور سے آئے ہوئے بابا سردار پابیندر سنگھ اور اس کے چند سکھ اور مسلمان دوست بھی ملے جو پشاور سے خصوصی طور پر یہاں میڈیکل کیمپ لگانے پہنچے تھے۔ کہاں پشاور کے نواح میں خیبر کی سنگلاخ سرزمین اور کہاں کالام کے دور دراز پہاڑ۔ اتنا طویل سفر ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوا۔ سچ ہے نیکی کا کوئی مذہب نہیں‘خدا کی رضا تو سب کو مطلوب ہے۔