27 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 19…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
”نیکی کا کوئی مذہب نہیں۔ خدا کی رضا تو سب کو مطلوب ہے‘‘۔ پابیندر سنگھ‘ اُسی خدا کی تلاش میں یہاں پہنچا ‘جو کہتا ہے کہ جس نے میری مخلوق کی خدمت کی اُس نے میری خدمت کی۔ مخلوق میں انسان ہی نہیں چرند پرند‘ کیڑے مکوڑے بھی آتے ہیں۔ وہ معصوم پرندے اور وہ چڑیا جو گرم موسم میں پانی کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے اور لوگ گھر کی چھت یا صحن میں پانی کا پیالہ رکھ دیتے ہیں۔ بابا جی اور ان کے ساتھی بہت دیر تک ان سینکڑوں مریضوں کے دکھ اور دردکی بات کرتے رہے جن کا انہوں نے سیلاب کے بعد علاج کیا اور انہیں ادویات دیں۔ اس دستِ شفا کے لیے نجانے کتنے دستِ دعا بلند ہوئے۔ مسیحا‘ رنگ‘ نسل‘ مذہب‘ دھرم‘ سیاست‘ ذات‘ برادری کے بھید بھاؤ سے بے نیاز بس خدمت کیے چلا جاتا ہے۔ وطنِ عزیز پر کوئی بھی مشکل آئے تو ساری قوم بلا امتیاز رنگ و نسل یکجا ہو جاتی ہے۔ ہر تفریق مٹ جاتی ہے۔ ٹوٹے پھوٹے گھروں سے بلند ہوتی ہوئی آہیں اور ان پر مرہم رکھنا۔ ہم نے یہ منظر 2005ء کے زلزلے میں دیکھا اور پھر 2010ء کے سیلاب میں بھی۔ آج ایک بار پھر یہی منظر ہمارے روبرو تھے۔
کالام کی ایک مسجد میں دو سو سے زائد لوگ جمع تھے۔ مہتاب اور محسن نے بتایا کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے کالام کا زمینی رابطہ بحرین اور سوات سے کئی روز منقطع رہا۔ پاک فوج کی محنت سے بہت جلد چھو ٹی گاڑیوں کے لیے راستہ بحال کیا گیا اور پھر انہی جوانوں نے ایک بہت بڑا پل بھی بنا دیا۔ پل بنتے ہی اخوت کی ٹیم کالام کے لیے روانہ ہوئی اور متاثرہ علاقوں کا سروے شروع کیا۔ پشمال‘ اریانی‘ الا ئی کوٹ‘ بنگلہ اور بیلا کے علاقے سیلابی ریلے سے بری طرح متاثر ہوئے۔ ان علاقوں میں مختلف اندازوں کے مطابق سینکڑوں کی تعداد میں گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ان متاثرین میں سے کئی سو افراد کو کیش کی سہولیات فراہم کی گئیں تاکہ یہ خاندان چند روز کے لیے خوراک کی کمی سے محفوظ رہیں۔ اخوت کی مزید ٹیمیں فیلڈ میں موجود ہیں اور سروے کر رہی ہیں کہ لوگوں کی کس طرح مدد کی جا سکتی ہے۔ دشوار گزار راستوں پہ چل کے ضرورت مند افراد کی تلاش بھی آسان نہیں۔ اخوت پہ ہی کیا موقوف‘ بہت سے اور غیر سرکاری ادارے بھی شب و روز اسی کاوش میں مصروف تھے۔ ان اداروں میں الخدمت‘ سیلانی اور تحریکِ لبیک پیش پیش تھے۔ دوسرے علاقوں خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں کام کرنے والوں کی فہرست میں بہت سے اور ادارے بھی شامل تھے۔
شہر کے متاثرہ علاقوں میں گھومنے کے بعد ہم اس مشہور ”ہنی مون‘‘ ہوٹل کے پاس پہنچے جو اب صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ اس ہوٹل کے گرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی اور کافی لوگوں نے اسے دیکھا۔ حیرت اور دکھ کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ۔ کچھ لوگوں نے یہاں گزارے ہوئے خوبصورت لمحوں کو بھی یاد کیا ہوگا۔ انسان اور انسان سے جڑا ہوا ہر نقش مٹ جائے گا۔ اگر کچھ رہے گا تو وہ خدائے بزرگ و برتر کی عظمت و جلال ہے جسے فنا نہیں۔ یہ سوال بھی عام ہوا کہ دریا کی موجوں کے عین درمیان اس ہوٹل کی تعمیر کی اجازت کس نے دی اور کیا قانون کے تمام تقاضے پورے کیے گئے۔ ہمارے مسائل کی ایک وجہ یہ بھی تو ہے کہ قانون کا نفاذ ایک مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ جب معاشروں میں انصاف کے بجائے ذاتی پسند و ناپسند اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول لاگو ہو جائے تو وہاں آفتیں بھی آتی ہیں اور ان کا حل بھی نہیں ملتا۔
کالام کے درو دیوار پہ برستی حسرت کی تصویریں لیے ہم واپس ہیلی پیڈ کی طرف روانہ ہوئے تو اطلاع ملی کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کی پرواز منسوخ ہوگئی ہے۔ اب واپس بحرین اور مدین اسی سٹرک سے جانا ہے جو جگہ جگہ سے ابھی تک شکستہ ہے اور آمدورفت آسان نہیں۔ ہم نے میجر امان اللہ اور جنرل فیض کی جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے اس جیپ میں بیٹھ گئے جس کا انتظام مہتاب نے پہلے ہی کر رکھا تھا۔ یقیناً یہ ایک مشکل سفر ہوگا لیکن شرط عمر کی نہیں‘ جذبے کی ہے۔ مدین تک واپسی کا سفر کوئی پانچ گھنٹوں میں طے ہوا جو عام طور پر ایک ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ نہیں۔ جہاں بھی ٹریفک بلاک ہوئی رضاکاروں کی کوئی جماعت اُمڈ آئی۔ کوئی بچوں کو اٹھا رہا ہے۔ کوئی گاڑیوں کو دھکا لگا رہا ہے۔ کوئی بوڑھوں کو سہارا دے رہا ہے۔ کوئی دریا کے کنارے کو مضبوط کر رہا ہے۔ کوئی کیچڑ کو خشک کرنے کے لیے مٹی ڈال رہا ہے۔ مشکل کے باوجود کسی کے چہرے پہ پریشانی کے کوئی آثار نہیں۔ مشکل کا مقابلہ ہی بہادری کی نشانی ہے۔ ایک زندہ قوم کی تعمیر یوں ہی ہوتی ہے۔ مدین تک ہم جیپ میں پہنچے۔ وہاں ہماری گاڑی پہلے سے موجود تھی۔ سامان منتقل ہوا اور واپسی کے دوسرے سفر کا آغاز ہونے لگا۔ اب کے منزل اسلام آباد تھی۔
مٹہ‘ کبل‘ چکدرہ اور پھر سوات ایکسپریس اور پشاور اسلام آباد موٹروے۔ بارہ گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد جب ہم اسلام آباد پہنچے تو نصف شب گزر چکی تھی۔ روشنیوں کا شہر‘ شاہراہوں کا شہر‘ اہلِ ثروت و اقتدار کا شہر‘ حکمرانوں کا شہر جن میں سے شاید بہت کم ہوں گے جنہوں نے ابھی تک کالام کے ٹوٹے اور شکستہ گھروں کے کسی مکین کو دیکھنے کی تکلیف کی۔ ان خوف زدہ آنکھوں کو‘ جنہوں نے اپنے سامنے اپنے پیاروں کو دریا کی منہ زور موجوں کی نذر ہوتے ہوئے دیکھا۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان۔ مجھے وہ ماں پھر سے یاد آنے لگی جس نے کہا ”میرا بیٹا اس پانی میں کھیل رہا تھا ابھی چند دنوں میں یہ پانی خشک ہو جائے گا اور وہ واپس لوٹ آئے گا‘‘۔ جب امید کی یہ ڈور ٹوٹی تو کیا ہوگا۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ مجھے وہ بیٹیاں بھی یاد آئیں جن کے سہاگ لٹ گئے اور وہ بھائی بھی جنہوں نے اپنی بہنوں کے بازو کو مضبوطی سے تھاما لیکن دریا کی لہریں طاقتور تھیں۔ بہن کو چھین کر کہیں دور‘ بہت دور وہاں لے گئیں جہاں سے کوئی لوٹ کے نہیں آتا۔
اسلام آباد کی فضاؤں میں ایک بار پھر گہری خاموشی طاری تھی۔ مجھے یاد آیا کہ یہ ایک شہر نہیں ایک استعارہ ہے۔ منہ زور طاقت اور بے بسی کا۔ یہ ایک بت کدہ ہے۔ جو بھی یہاں جاتا ہے‘ بت بن جاتا ہے۔ پھر اس کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا۔ اگر دھڑکتا ہے تو صرف اپنے لیے۔ یقینا کچھ لوگ مختلف بھی ہوں گے۔ ہم اس شہر کی خیر مانگتے ہیں۔ خدا اسے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ سکھ کا سایہ اور خوشیوں کی برکھا برستی رہے۔ یہ شہر ہے تو ہم ہیں۔ یہ ہے تو پاکستان ہے لیکن نجانے کیوں معین احسن جذبی کا وہی شعر جو اس شہر سے نکلتے ہوئے یاد آیا ایک بار پھر کانوں میں گونج رہا تھا:
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں