30 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 2…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

                                                                                                                                               

(یہ مختصر سرگزشت اُن چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیر نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں۔)
کوٹ مٹھن سے ہم رات گئے ملتان پہنچے۔ سفر کی گرد اور جی کا ملال۔ رات کچھ جاگتے‘ کچھ سوتے گزر ہی گئی۔ یوں بھی ملتان کی سرزمین پہ صوفیوں کا سایہ ہے۔ ”چہار چیز است تحفۂ ملتان‘ گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان‘‘۔
ملتان کی چار چیزیں مشہور ہیں: دھول‘ گرمی‘ فقیر اور قبریں۔
اگلے روز ڈی جی خان کا رخ ہوا۔ راستہ صاف ستھرا تھا۔ بہترین سڑک‘ ٹریفک رواں دواں۔ چناب اور سندھ‘ راستے کے دو دریا عبور کرکے ہم ڈی جی خان کی حدود میں داخل ہوئے۔ دونوں دریاؤں میں پانی مچل رہا تھا لیکن شکر کہ ابھی یہ طغیانی کے مقام سے دور تھے۔ اوپر سے بارش اور ادھر سے منہ زور دریا کا پانی۔ یہ دونوں مل جاتے تو شاید جو بچا ہے وہ بھی نہ بچ پاتا۔
ہم ڈی جی خان‘ تونسہ شریف اور کوٹ چھٹہ کی طرف روانہ تھے۔ ڈی جی خان کے نواح میں واقعہ کوٹ چھٹہ کا علاقہ سنا تھا کسی جھیل سے کم نہیں۔ سب سے پہلے ہم ڈی جی خان پہنچے۔ شہر کے ارد گرد پناہ گزینوں کو ہم نے دو مساجد میں اکٹھاکیا‘ ایک گھر میں سے ایک شخص۔ ان سے گفتگو کی۔ ان کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کی‘ دلاسا دیا اور مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کی۔ راشن بھی پیش کیا اور کچھ کیش بھی۔ یہ راشن اور کیش کس قدر معمولی تھا۔ خود پر شرمندگی ہونے لگی۔ یہ احساس البتہ ضرور تھا کہ ان بے گھر افراد کے کچھ مسائل کم ہو جائیں گے۔ وہ بھی چند دنوں کے لیے۔ گفتگو تو بہت ہوئی۔ کچھ باتیں کہی گئیں۔ کچھ سنی گئیں اور کچھ بنا کہے ہم تک پہنچ گئیں۔ بھوک نے انہیں چند ہی روز میں لاغر کردیا لیکن ان کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ بھوک کے یہ دن تو گزر جائیں گے مگر جب واپس گھروں کو جائیں گے تو ٹوٹے ہوئے در و دیوار‘ گری ہوئی چھتوں اور چند اینٹوں کے سوا وہاں کچھ نہیں ملے گا۔ وہ جو کبھی گھر تھا۔ ایک سائبان‘ ایک پناہ گاہ۔ اب تو محض ملبہ ہے۔ سردیوں کا موسم زیادہ دور نہیں۔
کوہِ سلیمان کی یخ بستہ ہواؤں کی شدت کا آپ کو شاید اندازہ ہی نہیں۔ ”ہمارے پاس تو اب چند روپے بھی نہیں کہ ہم گھروں کی تعمیر کر سکیں۔ ہم اپنی معصوم بچیوں کو لے کر کہاں جائیں گے۔ کس چھت تلے پناہ لیں گے۔ ان کی عزت کیسے محفوظ رہے گی۔ چادر بھی نہ رہی چاردیواری بھی منہدم ہوگئی۔ مال مویشی بھی بہہ گئے۔ کھیتی بھی اجڑ گئی۔ کس کے پاس جائیں۔ وزیر‘ مشیر‘ افسر‘ بینک‘ ساہو کار‘ سردار‘ وڈیرہ۔ ہمیں تو یہ بھی خبر نہیں وہ کہاں رہتے ہیں‘‘۔ جب انہوں نے یہ کہا تو کلیجہ منہ کو آنے لگا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا گھر کتنا بڑا ہے؟ کیسا ہے؟ پکا ہے یا کچا ؟اور اس میں کتنے کمرے ہیں؟ اس گھر کی دوبارہ تعمیر میں کتنے پیسے خرچ ہوں گے؟ انہوں نے بڑی سادگی سے کہا کہ ”ہمارا تو ایک ہی کمرے کا گھر ہوتا ہے جس کی کچی دیواریں ہوتی ہیں۔ شہتیر ہوتا ہے یا ٹی آئرن (T-Iron) اور لوہے کے چندگارڈر ہوتے ہیں جن پر ”سر کی‘‘ بچھا کر مٹی کی لپائی کردی جاتی ہے۔ چھوٹا سا صحن اور بغیر چھت کے چولہا۔کھلے آسمان تلے کھانا پکتاہے۔ یہ ہے ہمارا گھر۔ پختہ اینٹیں بھی کم کم استعمال ہوتی ہیں اور سیمنٹ کے بجائے زیادہ تر گارے سے چنائی ہوتی ہے۔ یہ کوئی بڑے بڑے عالی شان گھر یا محل نہیں۔ محل تو اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ لاڑکانہ‘ بنی گالا یا رائے ونڈ میں ہوتے ہیں‘‘۔ ان الفاظ کی گہرائی میں جو درد ہے‘ شاید کسی کو بے چین کردے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے گھروں کی تعمیر ساٹھ‘ ستر ہزار یا اسی ہزار روپے میں ہوتی ہے۔ کروڑوں روپے کے گھر میں رہنے والے نہیں جانتے کہ یہ لاکھوں لوگ ایک لاکھ روپے سے بھی کم میں اپنے گھر بنا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ہمارے پاس لوہے کے گارڈر بھی موجود ہیں‘ کھڑکیاں اور دروازے بھی موجود ہیں۔ بارش نے صرف چھت اور دیواریں گرائی ہیں۔ اگر کہیں سے ایک لاکھ تک کا بندوبست ہو جائے تو ہم انہی گھروں کو گرا کے دوبارہ بنا سکتے ہیں‘ مٹی ڈال کر زمین سے اونچا بھی کر سکتے ہیں۔ پہلے سے زیادہ بہتر اور مضبوط۔ آپ کہیں گے تو ان علاقوں سے بھی دور ہو جائیں گے جو ان منہ زور ندی‘ نالوں اور دریا کی گزر گاہ میں آتے ہیں‘‘۔
اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ شخص درست کہہ رہا تھا۔ بھوک‘ پیاس اور اذیت کے یہ چند دن تو گزر جائیں گے لیکن واپس اپنی بستی جا کر ان پر کیا بیتے گی۔ یہ غالبؔ کی طرح خوش گمان تو ہیں نہیں‘ جو کہتے پھریں کہ
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
ان کے آشیاں تو بکھر گئے۔ بارش اور پانی کے ریلوں سے۔ اب تو وہاں کچھ نہیں‘ سوائے اک حسرتِ تعمیر کے۔ اصل میں تو اب ہمیں گھر بنانے ہیں‘ گھر‘ گھر اور گھر۔ جہاں انہیں سر چھپانے کی جگہ ملے اور پھر کاروبار‘ زراعت اور لائیو سٹاک کے لیے سرمایہ دینا ہے۔ گھروں کی تعمیر پر آنے والی لاگت‘ سیلاب سے محفوظ جگہوں کی تلاش‘ مقامی طرزِ معاشرت مگر نسبتاً جدید اور بہتر بستیاں جہاں بجلی نہیں سولر انرجی کی سہولت ہو۔ صاف پانی بھی ہو اور نکاسیٔ آب کا انتظام بھی۔ دونوں مساجد میں سینکڑوں لوگ تھے۔ صرف چند ایک نے کہا کہ ہمارا گھرایک لاکھ کے بجائے تین یا چار لاکھ میں بنے گا۔ یہ بات سن کر اکثر یت نے انہیں حیرت سے دیکھا اور خود سے جھٹلا دیا۔
ایک بات جو سب سے اچھی لگی وہ کچھ اور ہی تھی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ بھیک نہیں چاہتے اور نہ ہی خیرات کے عادی ہیں۔ ”ہم عزت والے جری اور بہادر لوگ ہیں۔ ہم نے جو پہلے گھر بنائے تھے وہ بھیک اور خیرات میں تو نہیں بنے تھے‘‘۔ ایک بوڑھے بلوچ نے گرجتی ہوئی آواز میں کہا۔ آواز کی اس گونج میں جو وقار تھا کاش وہ پورا پاکستان سن سکتا۔