27 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 20…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

یہ مختصر سرگزشت اُن چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
اسلام آباد سے اگلے روز واپسی تھی۔ پھر سے لاہور۔ وہی دفتر اور کانوں میں گونجتی ہوئی وہی دکھ بھری صدائیں۔ وسائل کم پڑ رہے تھے اور لوگوں کی ضروریات بہت زیادہ تھیں۔ بہت ہی زیادہ۔ کھانا تو مل رہا تھا لیکن زندگی کے لیے اور بھی تو بہت کچھ چاہیے۔ ہماری ٹیم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں چند دنوں کے لیے ملک سے باہرجانا چاہیے۔ جو تصویر ہم نے دیکھی وہ تصویر اُن اہلِ وطن کو بھی دکھائی جائے جو ملک سے باہر رہتے ہیں اور جن کے لہو کی ہر بوند پاکستان کا نام لیتی ہے۔ غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا تو اصول نہیں‘ اپنے بھائیوں کے دل پہ تو دستک دی جا سکتی ہے۔ چاروں صوبوں کے دورے بھی ہو چکے۔ نقصانات اور دکھ کی کچھ تفصیل بھی مل چکی۔ اب تو کہانی سنانی ہے۔ دو مشہور شخصیات‘ شعیب اختر اور نعمان اعجاز سے رابطہ ہوا۔ ایک کرکٹ کا درخشاں ستارہ اور دوسرا فن کی دنیا کا۔ لوگ ان کی بات سنتے ہیں۔ چلیں‘ ان کے ساتھ برطانیہ چلیں۔ کشکولِ گدائی نہیں‘ کشکولِ اخوت لے کر۔ یہ بتانے کے لیے کہ اہلِ وطن کو ان کی کس قدر ضرورت ہے۔ معاملات طے کرنے میں دیر نہ لگی۔ مقصد نیک ہو‘ ارادہ پختہ ہو اور خدا کی مدد شاملِ حال ہو تو دیر ہی کیا لگتی ہے۔ شاید ہماری یہ پکار کسی سوئے ہوئے کو جگا دے۔ کوئی ایک گھر آباد ہو جائے۔ چند دنوں میں انتظامات مکمل ہوگئے اور 26ستمبر کو ہم لندن کے لیے جہاز میں سوار تھے۔
برطانیہ کا یہ دورہ صرف چند روز پہ مشتمل تھا۔ چند روز میں پانچ شہر اور دس سے زیادہ تقریبات اور بیسیوں لوگوں سے انفرادی ملاقات۔ سارا پروگرام اخوت یوکے کی جانب سے مرتب کیا گیا۔ اخوت کے صدر عارف انیس اور ان کے ساتھی مصر تھے کہ ہم جلد پہنچیں اور کچھ لوگ حسبِ توقع معترض تھے کہ وطنِ عزیز سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے‘ لوگ رو رہے ہیں اور آپ اِنہیں چھوڑ کر برطانیہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کاش ہم بدگمانی کی جگہ خوش گمانی کو اصول بنائیں۔ کچھ سفر سیر کے لیے ہوتے ہیں‘ کچھ جلاوطنی کے اور کچھ فرض کی ادائیگی کے لیے۔ یہ تو نیت کی بات ہے۔ ہماری نیت درست تھی۔ ہمارا مقصد واضح تھا۔ ہمیں تو بیرونِ وطن بسنے والے بھائیوں اور بہنوں کو بتانا تھا کہ ان کے بہت سے بھائی اور بہنیں مشکل میں ہیں۔ کوئی پانی میں بہہ گیا‘ کوئی چھت کے ملبے تلے دب گیا۔ کسی کی فصل اجڑ گئی۔ کسی کا کاروبار مٹ گیا۔ کسی کے جانور نہ رہے۔ چند بھیڑ بکریاں‘ گائے یا بھینسیں۔ آج ان کی مدد نہ کی گئی تو ایک حسرت سی رہ جائے گی۔
عارف انیس یوکے اخوت کے اعزازی صدر ہیں۔ معروف مصنف‘ کالم نگار اور سول سروس کے 29 ویں کامن کے رکن۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ برطانیہ کے لوگ غم زدہ ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اہلِ وطن درد کی کس کیفیت سے گزر رہے ہیں اور مدد کے لیے بھی بے چین ہیں۔ عارف انیس سے ہماری پہلی ملاقات دس سال قبل لندن کے کنگز کالج میں ہوئی۔ مارتھا نامی ایک خاتون کے ساتھ‘ جو پولینڈکی رہنے والی تھی اور فر فر اردو بولتی تھی۔ عارف نے وعدہ کیا کہ وہ بہت جلد اخوت کا مستقل حصہ بن جائیں گے۔ عارف انیس تربیت بھی دیتے ہیں اور ان کا موضوع لیڈر شپ ہے۔ انہوں نے مجھ سے اپنی ایک کتاب کا پیش لفظ لکھنے کو کہا۔ ”I am possible‘‘ نامی ان کی یہ کتاب ایسے مضامین کا مجموعہ ہے جو سونے والوں کو جگا دیتے ہیں اور جاگنے والوں کو سفر پہ آمادہ کردیتے ہیں۔ عارف انیس کا تعلق سون سکیسر کی خوبصورت وادی سے ہے۔ واصف علی واصفؔ‘ احمد ندیم قاسمی‘ خوشونت سنگھ‘ عبدالقادر حسن جیسے لوگ اس خطے سے اٹھے۔ تصوف‘ دانش‘ ادب‘ شاعری اور صحافت کی دنیا میں نام پیدا کرگئے۔ وہ بھی اسی روایت کی اگلی کڑی ہے۔ سون سکیسر سے نکل کر لندن کی یخ بستہ ہواؤں کا سفر اس کے لیے بہت آسان نہ تھا۔ اس نے اپنی کتاب میں بہت خوبصورت باتیں لکھیں۔ اس کا کہنا ہے ”زندگی کے کھیل میں لاٹری اسی کی نکلتی ہے جس نے لاٹری کا ٹکٹ خرید رکھا ہو۔ یعنی کامیاب وہ ہوتا ہے جو کامیابی کے لیے تیار ہو‘‘۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم امید کا دیا بجھا دیتے ہیں۔ ہم محنت سے جی چراتے ہیں۔ ہم سچ کو فراموش کردیتے ہیں۔ ہم جستجو کو بھول جاتے ہیں۔ ہم غم زدوں کی مدد نہیں کرتے۔ کووڈ 19 میں اس نے ایک تحریک چلائی اور ایک ملین افراد کو کھانا کھلانے پر اسے لندن شہر کے سب سے بڑے اعزاز کا مستحق سمجھا گیا۔ مصیبت کی موجودہ گھڑی میں بھی اسی نے عَلم اٹھایا:
موسم آیا تو نخلِ دار میں میرؔ
سرِ منصور ہی کا بار آیا
یوں بھی وطنِ عزیز پر مشکل آئے اور عشاق کھنچے چلے نہ آئیں‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ چند دنوں میں ہی عارف اور ان کے ساتھیوں نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ایک جامع پروگرام ترتیب دے دیا۔ خلیج اسلامک کے عاصم خان‘ سعود صدیقی‘ زاہد خلجی‘ عمارہ خالد‘ وقاص سہیل‘ عثمان صدیقی اور زین عباس۔ اس پروگرام کا عنوان ”پکار پاکستان‘‘ رکھا گیا۔ ایسٹ لندن‘ ویسٹ لندن‘ برمنگھم‘ بریڈ فورڈ‘ مانچسٹر‘ گلاسکو۔ پاکستان کے ہائی کمشنر معظم احمد خان کی طرف سے ہائی کمیشن میں ایک الگ پروگرام‘ اخوت یوکے کے چیئرمین ڈاکٹر افضل جاوید اور عمر افضل کے گھر ایک دعوت‘ بریڈ فورڈ میں یونس چودھری کی میزبانی‘ دنیاٹی وی سمیت کئی ملکی و چند مقامی چینلز کے ساتھ انٹرویو۔ ہر شخص یہی جاننا چاہتا تھا کہ سیلاب کے نقصانات کتنے ہیں۔ حکومت کیا کررہی ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ میرے پاس ہر سوال کا جواب نہیں تھا۔ کچھ درد بھرے دلوں کی صدا اور کچھ دکھ بھری کہانیاں ضرور تھیں جو کئی دنوں تک بلند ہوتی رہیں۔ دنیا ٹی وی کے اظہر جاوید کی غیرمعمولی آؤ بھگت۔ انہوں نے دنیا چینل کے سٹوڈیو میں دعوت دے کر گفتگو بھی کی۔ ورلڈ کانگریس آف اوورسیز پاکستانیز کے چیئرمین ڈاکٹر سہیل چغتائی جنہوں نے COVID 19کے دوران پاکستان میں غیر معمولی کام کیا‘ کی جانب سے خصوصی عشائیہ جس میں برطانیہ کے کئی معززین اورممبران پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔ گلاسکو کے کونسل جنرل سید زاہد رضا کی طرف سے ظہرانہ جس میں مقامی صحافی بھی مدعو تھے۔ کئی مخیر اشخاص سے ملاقاتیں۔ ورلڈ کانگرس آف پاکستانیز کے علاوہ پاکستان کے ہائی کمشنر اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی کئی ایک سیاسی جماعتوں کے سرگرم اراکین سے طویل گفتگو لیکن یہ سب کچھ سیاست سے بلند تھا۔ صرف پاکستان اور اہلِ پاکستان کے لیے۔ صرف ان کے لیے جو دکھ کی گہری دلدل میں گرے ہوئے ہیں۔ ہمارے اپنے۔ بے بس و بے کس۔ شعیب اختر اور نعمان اعجاز نے بارشوں اور سیلاب میں ڈوبے لوگوں کی بات کی تو اہلِ درد بے چین ہوکر رہ گئے۔ کئی آنکھیں بھیگیں۔ کئی آنسو ٹپکے اور کچھ لوگوں نے یہ سارے غم دل میں چھپا لیے۔ ضروری تو نہیں ہر غم آنسو بنے یا پھر لبِ اظہار تک آئے۔ اخوت کی طرف سے مختلف وڈیو کلپس اور آڈیوز کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اظہر حمید اور کامران آن بائیک کی وڈیو نے تو رلا کے رکھ دیا۔ گردشِ حالات یا وطن سے دوری کا دکھ بھلا کیا پوچھتے:
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا