27 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 21…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

اس سارے سفر میں ہمارا کام ایک موذن کا سا تھا جس کی ذمہ داری اذان دینا ہے۔ کون موذن کی آواز سنتا ہے‘ کون خدا کے گھر پہنچتا ہے یہ تو توفیق کی بات ہے اور توفیق اُسی کے در سے ملتی ہے۔ پاکستان سے ہمارے ہمراہ اخوت بورڈ کے ممبر نذیر تونیو بھی تھے۔ اخوت کی مقامی ٹیم نے تو محنت کا حق ادا کردیا۔ ایسے بہترین انتظامات کہ لوگ حیران رہ گئے۔ وقاص‘ زین اور ان کے ساتھی۔ ان تمام تقریبات میں تین ہزار سے زائد لوگ شامل تھے۔ سوشل میڈیا پہ ہزاروں افراد سے جو رابطہ ہوا وہ الگ تھا۔ عطیات کے وعدے بھی ہوئے۔ اب ان میں کس قدر وعدے وفا ہوتے ہیں یہ تو وقت بتائے گا۔ ایک طویل فہرست میرے روبرو ہے لیکن ان تمام اہلِ وطن کے نام کیا لیں جنہوں نے دامے‘ درمے‘ سخنے جی بھر کے مدد کی۔سلیمان رضا (ایم بی ای) واحد پاکستانی‘ جنہیں ملکہ کی آخری رسوم میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ ممتاز سماجی شخصیت انیل مسرت اور ان کی والدہ‘ مخدوم طارق محمود الحسن جن کے دو بچے ایک حادثہ میں جاں بحق ہوئے تو انہوں نے خود کو خلق کے لیے وقف کردیا۔ محمد ابراہیم جنہوں نے راولپنڈی میں اپنا گھر عطیہ میں دے دیا۔ بیر سٹر گل نواز‘ ڈاکٹر عامر برنی‘ حسن حمید چودھری‘ بیر سٹر فرحان فارانی۔ ان سب کا اجر تو ان کے رب کے پاس ہے۔ کسی نے آہستگی سے کہا کہ اللہ کی راہ میں اعلان کر کے دینا بھی درست اور اعلان کیے بغیر دینا بھی درست۔ برمنگھم میں اخوت کے ساتھی رفاقت شبیر‘ ناصر اعوان اور عرفان بٹ۔ گلاسگو میں شاہد فاروق اور امان رضا۔ لندن کے جہان زیب خان اور طارق بٹ جنہوں نے کہا ”آئندہ سے لندن میں اخوت کی جتنی تقریبات ہوں گی ان کا کھانا ان کی کیٹرنگ کمپنی کی طرف سے تحفہ ہوگا‘‘۔ کاروبار میں خلوص اور ایثار شامل ہو جائے تو وہ عبادت بن جاتا ہے۔ ایسے ایک دو نہیں کئی واقعات ہیں۔ لندن میں سلیمان رضا اور برمنگھم میں رفاقت شبیر نے اخراجات کا بڑا حصہ اپنے ذمے لیا۔ مانچسٹر میں ڈاکٹر یونس پرواز‘ ان کی اہلیہ محترمہ شگفتہ یونس اور یورپین پارلیمنٹ کے سابق رکن امجد بشیر جن کے ہوٹل میں دیر گئے بیٹھ کر تعمیرِ نو کی باتیں ہوتی رہیں۔ مصیبت زدہ بھائیوں کو اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتے۔ ایسے لوگوں سے ہی دنیا خوبصورت نظر آتی ہے۔
برطانیہ کا یہ سارا سفر ان لوگوں کی بدولت امید کا سفر بن گیا۔ ہر صبح ایک نیا پیغام لے کے آتی رہی۔ آگے بڑھنا ہے۔ شکستہ بستیوں کو تعمیر کرنا ہے۔ ٹوٹے ہوئے گھروں کو پھر سے کھڑا کرنا ہے۔ یہ ہم نہیں وہ لوگ کہہ رہے تھے جو دیارِ غیر میں رہتے ہیں۔ اہلِ وطن کی بے بسی یاد آتی تو ہمت کی ایک لہر سی جاگ اٹھتی۔ چند دنوں میں سینکڑوں لوگوں سے ملاقات۔ ارادہ نیک ہو تو وقت میں بھی برکت پڑ جاتی ہے۔ مشکلیں بھی کم ہو جاتی ہیں۔ یہ سب قدرت کے کام ہیں اور قدرت کے کام کون سمجھا ہے۔ یہ بھی راز و نیاز کی ایک دنیا ہے۔ یہ ساری تگ و دو سیلاب زدگان کے لیے تھی لیکن اس کے باوجود مجھے لندن کے دو مقامات نہیں بھولے۔ شاید کسی کو بھی نہ بھولتے ہوں۔ ہائیڈ پارک اور دریائے ٹیمز۔ شب و روز کی دوڑ دھوپ کے باوجود وہاں جانے کے لیے وقت نکل ہی آیا۔ دریائے ٹیمز دنیا کے چند خوبصورت دریاؤں میں سے ہے۔ لندن کے بیچوں بیچ گزرتا ہوا۔ اس کے اردگرد بلند عمارتیں ہیں‘ قلعے‘ محل‘ کلیسا‘ گرجے‘ بینک اور پھر ادب‘ ثقافت اور فن کے شہ پارے۔ کہیں ریسٹورنٹس‘ ہوٹل‘ قحبہ خانے‘ رقص گاہیں‘ عجائب گھراور کلب۔ کبھی یہ دریا بھی ہر سال اپنے کناروں سے بلند ہو کر اردگرد بسنے والوں کو نگل جاتا تھا لیکن اب اس کی ساری طاقت کو مضبوط دیواروں میں باندھ دیا گیا ہے۔ ادھر ہمارا دریائے سوات ہے‘ مدین ہے‘ کابل ہے اور ملک کے طول و عرض میں بیسیوں ندی نالے ہیں جن کے کنارے ہم کوئی دیوار ہی نہ بنا سکے۔ ملیر کی چھوٹی سی ندی اور لئی کا معمولی نالا۔ سندھ ‘ چناب‘ جہلم اور راوی ‘جدھر چاہے منہ اٹھا کے چل پڑتے ہیں۔ ہم اپنے دریاؤں کے پشتے مضبوط کیوں نہیں کرتے۔ کیا ہمیں اپنی بستیاں عزیز نہیں ہیں۔ کیا ہمارے گھر بار زمین بوس ہونے کے لیے بنے ہیں۔کیا یہاں مائیں بچوں کو اس لیے جنم دیتی ہیں کہ وہ سارا دن بھوکے رہیں‘ سکول نہ جائیں‘ وڈیروں‘ چودھریوں اور گدی نشینوں کے جوتے صاف کریں اور پھر جب پانچ دس سال بعد سیلاب آئے تو منہ زور لہروں میں ڈوب کے دم توڑ دیں۔
دریائے ٹیمز کے ساتھ بنی گزرگاہ پر چلتے ہوئے میں یہی سوچتا رہا۔ ہماری وہ بیٹیاں اور بچے جو تپتی‘ سلگتی ریت میں ننگے پاؤں چلتے ہیں۔ وہ مائیں جن کی آنکھوں میں کوئی خواب ہی نہیں۔ میں نے ایک بار پھر دریا کی طرف دیکھا۔ پُر سکون لہریں۔ کوئی کشتی گزرتی تو ہلکا سا ارتعاش جنم لیتا اور فوراً ہی دم توڑ دیتا۔ مجھے یاد آیا دریا کے اس بہتے پانی میں کہیں نہ کہیں ہماری اپنی کہانی بھی شامل ہے۔ برصغیر کی کہانی۔ ہم کیسے غلام بنے؟ کس نے ہماری آزادی چھینی اور کیسے ہماری جھولی میں غربت کے کانٹے بھر دیے گئے۔ ریئر ایڈمرل جاوید اقبال کی تحریر ”ہم گناہ گار ہیں‘‘ ایک بار پھر سے یاد آئی۔ وہ دن جب سب سے پہلے اجنبی نے ہماری پُرامن اور سرسبز بستیوں کو ویران کیا تھا۔
کچھ دیر کے لیے میں اردگرد فلک بوس عمارتوں کو دیکھتا رہا اور پھر ٹیمز کے کنارے پڑے بنچ پہ بیٹھ گیا۔ ہماری پشت پر ہاؤس آف کامنز کی عمارت تھی۔ وہ جگہ جہاں کبھی دنیا کے فیصلے ہوتے تھے۔ جہاں میگنا کارٹا آویزاں ہے‘ جہاں کسی نے ایک فرانسیسی مدبر کی بات دہرائی تھی: “War is too serious a matter to leave to generals”۔ میرے کانوں میں چرچل کی وہ تقریر گونجنے لگی جو اس نے دوسری جنگِ عظیم کے موقع پر جرمنی اور اپنے ہم وطنوں سے مخاطب ہو کے اسی ایوان میں کی۔
“We shall fight on the seas and oceans, we shall fight with growing confidence and growing strength in the air. We shall defend our island whatever the cost may be. We shall fight on beaches, we shall fight on the landing grounds, we shall fight in fields and in the streets, we shall fight in the hills. We shall never surrender”.
کاش ہمارا بھی کوئی ایسا لیڈر ہو جو کہے کہ ہمیں بھی آج ایک جنگ کا سامنا ہے۔ یہ جنگ جرمنی‘ اٹلی یا جاپان سے نہیں غربت‘ جہالت‘ افلاس اور تعصب سے ہے۔ ان منہ زور لہروں سے ہے جو ہمارا سب کچھ بہا کے لے گئیں۔ وہ کہے کہ ہم بھی اس جنگ کا مقابلہ پہاڑوں‘ میدانوں‘ ساحلوں اور صحراؤں میں کریں گے۔ ان خستہ حال کچی بستیوں اور دور دراز دیہات میں‘ جہاں دو کروڑ بچے کاغذ‘ قلم اور کتاب سے محروم‘ بے مصرف زندگی گزارتے ہیں۔ اور یہ بھی کہے کہ We shall never surrender اور پھر الفاظ میں کچھ تبدیلی کے ساتھ فرانسیسی مدبر کی یہ بات بھی دہرائے کہ:
“Statecraft is too serious matter to leave to generals” اور پھر یہ سب کچھ صرف کہے نہیں بلکہ ان الفاظ کی عملی تفسیر بھی بنے۔ سہمیں سیاست دان نہیں مدبر (Statesman) چاہئیں۔ افق کے اس پار‘ کہیں اور دیکھنے والے۔ جیسے قائداعظم۔ جیسے نیلسن منڈیلا۔ جیسے لی کوآن یو۔ سنگاپور کا وزیراعظم جس نے کہا تھا یا تو میں امیر بن سکتا ہوں یا میرا وطن۔ یہ دونوں باتیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔