27 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 22…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
سیلاب کو ایک ماہ گزر گیا تھا لیکن پانی ابھی تک بستیوں میں کھڑا تھا۔ ان سب دل خراش مناظر کی یاد لیے میں سر ونسٹن چرچل کے قدِ آدم مجسمہ کے روبرو کھڑا تھا۔ سپاہی‘ صحافی‘ سیاست دان‘ مدبر‘ ادیب اور پھر برطانیہ کا وزیراعظم۔ جب اسے نوبیل پرائز ملا تو اس کی عمر 79 برس تھی۔ یہ اعزاز سیاسی خدمات کی بنا پر نہیں بلکہ چند تحریروں اور بہترین مقرر ہونے پر ملا۔ گویا وہ میدانِ فکر و ادب کا بھی شہسوار تھا۔ مجھے پاکستان میں سوات ہائی وے پر چکدرہ کے قریب واقع ”چرچل پوسٹ‘‘ یاد آنے لگی۔ جہاں چرچل نے کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔ سوات‘ مدین‘ بحرین اور کالام کے سفر میں جس کی طرف جنرل (ر) فیض جیلانی نے اشارہ کرکے بتایا تھا کہ یہاں چرچل نے بہت سے دن تنہائی میں گزارے۔ تدبر‘ تدبر‘ تدبر۔ وہ مستقبل کے خواب بُن رہا تھا۔ یہ جانے بغیر کہ زندگی اسے کبھی کسی بلند مقام پہ لائے گی۔ لائے گی بھی یا نہیں۔ نہ جانے وہ خود کو کس معرکہ کے لیے تیار کررہا تھا۔ ناکامی یہ نہیں کہ کامیابی دستک دینے نہ آئے‘ ناکامی یہ ہے کہ کامیابی دستک دے اور آپ اس کے لیے تیار نہ ہوں۔ زندگی اگر ایک سٹیج ہے تو وہ یقینا اس سٹیج پر خود کو کسی بڑے کردارکے لیے تیار کررہا تھا۔ کاش ہماری صفوں میں بھی ایسا کوئی رہنما ہوتا۔ انتظار کے لمحے طویل تر ہو رہے ہیں۔
چرچل کے مجسمے سے تھوڑا سا آگے جائیں تو ایک بہت بڑا پارک ہے۔ اس پارک کے بالمقابل وار رومز ہیں جہاں دوسری جنگِ عظیم کے دوران برطانوی کیبنٹ کی میٹنگز ہوتی تھیں۔ ہٹلر کے جنگی جہاز پورے شہر پہ سایہ کر دیتے۔ آسمان سے آگ برستی اور چرچل کی کابینہ جنگ کی حکمتِ عملی تیار کرتی۔ اتفاق‘ اتحاد‘ مشاورت‘ معاونت۔ ہمارے ہاں ایک تہائی لوگ پانی میں ڈوبے مدد کو پکار رہے ہیں اور ہم اس قیامت سے لڑنے کے بجائے سیاسی جنگ کا طبل بجا رہے ہیں۔ ہمارے معزز ممبران کتنی بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے اور کتنی بار انہوں نے سیلاب کے بارے میں کوئی گفتگو کی۔ سنا ہے وزیراعظم نے سیلاب زدگان سے ملنے اور ان کے آنسو پونچھنے کے لیے بیسیوں سفر کیے۔ ہر صوبے میں گئے۔ لیکن کوئی اور؟ ایک سوال ذہن میں اٹھا اور ہم خاموش ہوگئے۔ چرچل نے ایک بار ایک عجب پیشین گوئی کی۔ بہت سے اخباری نمائندے اسے گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔ ایک نمائندے نے گھبرائے ہوئے لہجے میں سوال کیا؛ ” مسٹر پرائم منسٹر! کہیں ہم یہ جنگ ہار تو نہیں جائیں گے‘‘۔ چرچل نے اس شخص کو پیار سے دیکھا اور پوچھنے لگا ”کیا ہمارے ملک کی عدالتیں انصاف دے رہی ہیں‘‘۔ جواب ملا: ہاں۔ ”جاؤ جا کر اطمینان سے سو جاؤ۔ ہم جنگ نہیں ہار سکتے‘‘ چرچل نے یہ کہا اور آگے بڑھ گیا۔ تاریخ پڑھنے والے‘چرچل کا یہ فقرہ بڑے شوق سے دہراتے ہیں لیکن کسی بات کو دہرانے اور اس بات پر عمل کرنے میں بہت فرق ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا:
“Integrity is correspondence between words and deeds”
یعنی Integrity گفتار اور کردار کے ہم آہنگ ہونے کا نام ہے۔ کاش ہم جو کہتے ہیں وہی کریں اور جو کرتے ہیں‘ وہیں کہیں۔ یہی امانت‘ دیانت اور صداقت ہے۔ کوئی ہمارے ہاں کسی وزیراعظم سے پوچھے۔ کوئی کسی عالی مرتبت جسٹس یا چیف جسٹس سے یہی سوال کرے۔ ”کیا ہمارے ملک کی عدالتیں انصاف دے رہی ہیں‘‘۔ جواب کیا ہوگا‘ کیا ہمیں علم نہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جواب سن کر بائیس کروڑ لوگوں کا سر شرم سے جھک جائے اور ہم یہ جنگ ہار جائیں۔ تاریخ ہمیں ماضی کے کوڑے دان میں پھینک دے۔ حمیت نام تھا جس کا‘ گئی تیمور کے گھر سے۔
برطانیہ میں گزرا ہوا وقت ان چند لمحوں کے باوجود امید کے دیے روشن کرتا رہا۔ جو ش جذبہ اور خدمت۔ یہ بھی ہمرکاب تھے۔ میڈیکل کالج کے ایک عزیز دوست ڈاکٹر انجم بشیر سے طویل ملاقات ہوئی۔ دیر تک ہم تیس‘ چالیس برس پرانے اور آج کے پاکستان کا موازنہ کرتے رہے۔ اس مختصر سفر میں ہم نے پایا بہت کچھ ہے لیکن کھویا زیادہ ہے۔ یقین کی روشنی تاہم اس کے چہرے پہ کھلی ہوئی تھی اور پھر مشہور سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر عامر سرفراز اور ان کی اہلیہ جن کی وطن سے محبت قابلِ رشک ہے۔ انجم بشیر اور عامر سرفرازکی طرح ہر شخص پر عزم تھا۔ ہماری درخواست پر ہائی کمیشن نے بھی ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ یہ تقریب بہت باوقار تھی۔ ہائی کمشنر اور ان کی اہلیہ محترمہ لینا معظم جو خود ایک سفارت کار ہیں‘ بہترین میزبان ثابت ہوئے۔ فارن سروس کے حسن ضیغم اور ان کے ساتھیوں نے کتنے ہی اچھے اچھے لوگوں کو مدعو کیا۔ کرنل اسد نے بہت پُر اثر پریزنٹیشن دی۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ ان کاوشوں کا تذکرہ جو حکومت‘ عوام اور افواجِ پاکستان نے کیں۔ نیپال کے ایک رہائشی بنڈانہ نیپالی اور ان کی اہلیہ سجن نیپالی نے جب اپنی طرف سے خطیر رقم پیش کی تو ایک بار پھر احساس ہوا کہ انسانیت رنگ اور نسل کے خانوں سے آزاد ہے۔ انہی دنوں لندن میراتھون بھی تھی۔ جس میں یورپ بھر سے ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ بنڈانہ اور سجن نے چند اور دوست تیار کیے۔ اخوت کی شرٹ پہنی اور مل کر سیلاب زدگان کی مدد کے نعرے لگاتے رہے۔ ان نعروں کی گونج فضا میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ہائی کمیشن کی تقریب میں کئی دوست شامل ہوئے۔ پیرس سے آنے والے ظفر اقبال تارڑ…
اس وزٹ میں سب سے خوبصورت تحفہ برطانیہ کی ایک شہری وینیسا او برائین کی جانب سے ملا۔ یہ عجب بہادر خاتون ہے مہربان بھی اور فیاض بھی۔ یہ کوہ پیما بھی ہے‘ تیراک بھی اور خلاباز بھی۔ اس نے ماؤنٹ ایوریسٹ کو سر کرنے کے علاوہ سمندر کی سب سے گہری تہہ کو چھوا اور خلا میں سب سے بلند مقام پر گئی۔ وہ ان مقامات میں جہاں بھی گئی ہر جگہ پاکستان کا جھنڈا اس کے ساتھ تھا۔ کیوں؟ یہ سوال نہ میں نے پوچھا نہ اس نے بتایا۔ لیکن کمال فیاضی سے اس نے وہ جھنڈا سیلاب زدگان کے نام کردیا۔ اس کی خواہش ہے کہ یہ جھنڈا پاکستان میں فروخت کیا جائے اور اس کے بدلے جو کچھ بھی ملے وہ سیلاب زدگان کے گھروں کی تعمیر کے لیے وقف کر دیا جائے۔ یہ جھنڈا ہمیں تھماتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ اب یہ جھنڈا عارف انیس کے پاس ہے۔ ہمیں کسی صاحبِ ثروت کی تلاش ہے جو اس جھنڈے کو خریدنا چاہے‘ جو ماؤنٹ ایوریسٹ پہنچا‘ جس نے سمندر کی تہہ کو چھوا اور فضا میں اس بلند ترین مقام کو بھی جہاں انسان جا سکتا ہے۔ مجھے لگا جھنڈا تو ایک استعارہ ہے اس کی فروخت کا اصل مقصد تو خدا کی رضا ہے۔ اوبرائن جب کئی سو لوگوں کے سامنے شیشے کے خوبصورت ڈبے میں بند یہ جھنڈا ہمیں پیش کر رہی تھی تو اس کی آنکھوں میں انسانیت سے محبت کی جھلک بھی تھی۔ لوگوں نے کھڑے ہو کے داد دی۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا گیا:
جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں شاید مگر ایسے بھی ہیں