Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 23…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا
خدا کی راہ میں دینا ہر شخص کی خواہش ہے اور اگر زندگی میں کوئی ایسا مقام آجائے جب ہزاروں لوگ مشکل میں ہوں تو یہ خواہش اور بڑھ جاتی ہے۔پاکستان سے ہمارے ساتھ آئے نامور کرکٹرشعیب اختر نے اپنا وہ کوٹ‘ جو پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے انہوں نے پہلی بار پہنا‘ اور اپنی کئی ایک شرٹس نیلامی کے لیے پیش کیں۔ ایثار کا یہ لازوال مظاہرہ تھا۔ کچھ لوگ خدا کی راہ میں اپنا سب کچھ پیش کردیتے ہیں۔یہی لوگ ہیں جو لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔کہاوتوں میں۔ قصے کہانیوں میں۔ حکم ِخداوندی بھی تو یہی ہے کہ ہم نیکی تک پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک اس کی راہ میں وہ شے پیش نہ کریں جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے۔غربت‘ بے حسی‘ بددیانتی۔ہم زوال کی عجب گھڑی پہ کھڑے ہیں لیکن اس کے باوجود موجودہ انسانی تاریخ میں جب بھی ایثار کی کہانی لکھی جائے گی‘ اہلِ پاکستان کا ذکر ضرور آئے گا۔ 2005ء‘ 2008ء‘ 2018ء اور 2022ء۔میرے سامنے قدرتی آفات کی ایک فہرست بکھری ہوئی ہے اور پھر بہت دور 1947ء جب لاکھوں مہاجرین ننگے پاؤں سر پہ ایک گٹھڑی رکھے پاکستان پہنچے۔ جب بھی مشکل حالات نے ہمیں گھیر ا ہم نے گرنے والوں کا ہاتھ تھاما‘ مل بانٹ کر کھایا اور ایک دوسرے کی مدد میں کوئی کمی نہ آنے دی اور پھر حال ہی میں COVID-19‘ جب ہر سو خوف اور بھوک کے پہرے کھڑے تھے‘ ہم نے وہ دن بھی گزار دیے۔
دیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ میں قیام کے دن اپنے اختتام کو پہنچے۔محبت اور ایثار کے یہ دن ہمیشہ یاد رہیں گے۔ برطانیہ کا یہ دورہ سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں ختم ہوا جہاں ہمارے میزبان شاہد فاروق تھے۔ بے لوث اور دردمند شاہد فاروق کے توسط سے معروف کاروباری شخصیت رمضان چوہدری کے صاحبزادے امن رمضان سے بھی ملاقات ہوئی جو چند روز قبل خطیر عطیات لے کے پاکستان گئے تھے۔ برمنگھم کی طرح گلاسگو میں بھی درد مندی کا مظاہرہ ہوا۔ شہر میں داخل ہوتے ہی ہم سیدھے پاکستان کونسل جنرل سید زاہد رضا کے دفتر پہنچے جہاں وہ اپنے کئی ایک دوستوں کے ساتھ منتظر تھے۔ کونسل جنرل سید زاہد رضا نے اخوت کی کہانی سنی اور سیلاب زدگان کی بھی۔ گلو گیر لہجے میں مدد کا وعدہ کیا اور پھر سے آنے کی دعوت دی۔وقت کی کمی کے باعث ہم ایڈنبرا نہ جاسکے۔برطانیہ میں کرکٹ کے مشہور کھلاڑی حسن نے اخوت کے قافلہ کو اگلی بار ایڈنبرا کی دعوت بھی دی۔ کون تھا جو اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے کمربستہ نہ ہوا۔ سکاٹ لینڈ ان پاکستانیوں سے بھرا پڑا ہے جنہوں نے محنت کی اور کامیاب ہوئے۔ پنجاب کے سابق گورنرچوہدری محمد سرور دنیا کے پہلے مسلمان ہیں جو برطانوی پارلیمنٹ میں پہنچے۔ نام پیدا کیا۔ سیاست میں‘ تجارت میں اور خدمت میں۔ گلاسگو کی تقریب شاید سب سے بڑی تقریب تھی۔ لوگوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح مدد کو آگے بڑھیں۔ وہ ہمیں کچھ دن اور روکنا چاہتے تھے لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ اگلے روز گلاسگو سے لندن کا سفر پہلے سے طے تھا۔ایک بڑی وین پر آٹھ گھنٹے کا سفر لیکن خراب موسم کی وجہ سے بارہ گھنٹے لگ گئے۔ عارف‘ زاہد‘ وقاص‘ زید‘ جنید۔ یہ بارہ گھنٹے اسی گفتگو میں گزرے کہ ” پکار پاکستان‘‘ کی اس مہم کو اور کیسے آگے لے کے چلنا ہے۔ اسے اخوت کے تعلیمی منصوبوں سے کیسے جوڑنا ہے۔سیلاب کے یہ دن تو گزر جائیں گے لیکن غربت کے اصل عفریت کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ میرے کانوں میں ایک عمررسیدہ پاکستانی کی بات گونج رہی تھی ”پاکستان اور مغرب میں فرق صرف تعلیم کا ہے‘‘۔ایک اور صاحب نے جواباً کہا ” آپ درست کہتے ہیں لیکن یہ فرق صرف تعلیم کا نہیں کردار کا بھی ہے۔ ہم نے سچ بولنا چھوڑ دیا‘سچ کے لیے جینا چھوڑ دیا‘ سچ کے لیے مرنا چھوڑ دیا۔ ہم اپنے نہیں کسی اور کے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ ایک کروڑ لوگ اگر بُری طرح متاثر ہوئے تو اکیس کروڑ تو الحمد للہ آباد ہیں۔ حل تو بہت سادہ ہے۔ بیس کروڑ ایک کروڑ کے دوست بن جائیں۔ بیس گھرانے ایک گھرانے کو اپنا لیں‘‘۔یہی مواخات ہے ہم نے عرض کیا اور یہی علم لے کر ہم یہاں پہنچے ہیں۔
واپسی کی رات یہی باتیں ہوتی رہیں۔ ایک طویل نشست۔خلیج اسلامک کے عاصم خان اور زاہد اور پھر عارف‘ عمرافضل‘ جنید اور یوکے ٹیم کے وقاص اور زین۔ جب کچھ لوگ فیصلہ کرلیں کہ ہمیں خدا کی مخلوق کے لیے کام کرنا ہے تو پھر وہ کام ہوجاتا ہے۔اس عہد کی مشہور کتاب ”الکیمسٹ‘‘ کے مصنف نے کہا ” قدرت کی تمام قوتیں ایسے کام کی تکمیل کے لیے جس سے کسی کو عشق ہو جائے اس کے ہمرکاب ہونے لگتی ہیں‘‘۔ مولانا روم نے بھی شاید یہی کہا تھا ” تم جس شے کی تلاش میں ہو وہ شے بھی تمہاری تلاش میں ہے۔ شرط صرف عشق ہے۔ دیوانگی اور جنون‘‘۔ ایک بھرپور حکمتِ عملی طے ہوئی۔ سب نے ہاتھ ملایا اور پھر یہ سب ہاتھ دعا کے لیے اٹھنے لگے۔ اگلے روز فون پر ان تمام دوستوں کا شکریہ ادا کیا جو اس سفر میں ساتھ رہے یا جن کی مدد نے اس مہم کو کامیاب بنایا۔ ان لوگوں کا شکریہ جن کا دل ان دلوں کے ساتھ دھڑکتا ہے جو گھر سے بے گھر ہوئے اور ابھی تک کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔
جنید نے سامان باندھا۔ جہاز کی روانگی میں ابھی کچھ وقت تھا۔ یہ وقت ہم نے ہائیڈ پارک گھومنے میں گزارا۔ بلند وبالا قدیم درخت‘ گھاس کا ہرا سمند ر اور خوبصورت پرندے۔پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب۔ سنا ہے ہائیڈ پارک کے اردگرد بہت امیر لوگ رہتے ہیں اور ان امیر لوگوں میں کچھ پاکستانی بھی ہیں۔ان کی امارت کے کئی سچے جھوٹے قصے بھی مشہور ہیں۔ ہائیڈ پارک کے ساتھ بسنے والے ان پاکستانیوں کی بھی خیر اور ان غریبوں کی بھی خیر‘ جن کی چھت چند روز کی بارش کا بوجھ بھی نہ سہہ سکی۔ جو خزاں رسیدہ درخت کے پتوں کی طرح بکھر گئے۔کوئی بادشاہ ہو یا فقیر آخری قیام تو مٹی کا ایک ڈھیر ہی ہے۔واپس ہوٹل پہنچ کر سامان پر آخری نظر ڈالی اور ایئرپورٹ کی طرف چل پڑے۔
عمر اور جنید ائیر پورٹ تک چھوڑنے آئے۔ ان دونوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ خدا انہیں ہمت اور سمجھ بوجھ دے اور پھرخلقِ خدا کے لیے وقف کردے۔ جہاز کی روانگی کا اعلان ہوا۔میں لاؤنج سے نکلا‘ اچانک پیچھے سے کسی نے آواز دی۔ ”آپ ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں‘‘۔ میں نے اثبات میں سرہلایا۔ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور بہت سے پاؤنڈ نکال کر میری جیب میں ڈال دیئے۔ کئی سو تو ہوں گے۔ بس اتنا کہا ” کسی کا گھر بنا دیجیئے‘‘۔ میں نے پوچھا: آپ کا نام۔ کہنے لگے: میرا کوئی نام نہیں۔ میں نے کہا :رسیدکہاں بھیجیں۔ کہنے لگے ” جو خدا کی راہ میں دیتے ہیں‘ وہ رسید کا تقاضا نہیں کرتے‘‘۔ میں حیرت سے انہیں دیکھتا رہا۔ کیسے کیسے لوگ خدانے بنائے۔ یہ قافلۂ شام و سحر یوں ہی رواں دواں نہیں۔ وہ مجھے سے ہاتھ ملا کے بھیڑ میں گم ہو گئے۔ انہوں نے ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور میں جہاز میں سوار ہونے تک یہی سوچتا رہا کہ قافلۂ شام وسحر یوں ہی تو رواں دواں نہیں۔