30 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 3…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

یہ مختصر سرگزشت اُن چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں -تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں
”ہم عزت والے جری اور بہادر لوگ ہیں‘‘۔ اُس بوڑھے بلوچ کی باوقار آواز ہمیشہ میرے کانوں میں گونجتی رہے گی۔ ایک یا دو نہیں‘ ان سب کا یہی کہنا تھا کہ کیا ہمیں کہیں سے قرضے نہیں مل سکتے جن کی مدد سے ہم اپنا گھر بنا سکیں۔ اپنی فصل بو سکیں یا ہمارا چھوٹا موٹا کاروبار شروع ہو سکے۔ دکان تھی‘ وہ بہہ گئی ہے‘ اُس کو دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے سرمایہ نہیں۔ آنے والے دن نجانے کس طرح گزریں گے۔ دکھ کا ایک سایہ میرے سامنے سے گزرا اور یوں لگا جیسے ہر طرف اندھیرا ہو گیا ہو۔ ایسے بے بس تو ہم کبھی نہ تھے۔
دکھ بھری تصویریں دیکھ کے‘ المناک کہانیاں سن کے مجھے کچھ پرانی باتیں‘ پرانے سبق یاد آنے لگے۔ قدرتی آفات سے کیسے نمٹتے ہیں؟ بحالی کا عمل کیسے ہوتا ہے؟ یہ سب پہلی بار تو نہیں ہوا۔ برس ہا برس کے تجربے میرے رو برو تھے۔ دنیا بھر میں قدرتی آفات‘ سیلاب‘ زلزلے اور بارشیں بارہا آتی ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جو حکمتِ عملی بنتی ہے اس پر بہت سوچ بچار ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر اس حکمتِ عملی کے تین مرحلے ہوتے ہیں:
Rescue زندگی کو بچانا یا
Relief ابتدائی امداد یا
Rehabilitation مستقل بحالی  یا
آفات کے دوران پہلا مرحلہ زندگی‘ مویشی اور تھوڑا بہت مال اسباب بچانے کا ہے یعنی جو لوگ سیلابی پانی یا دریا میں گھر جائیں یا زلزلے کے بعد گھروں سے باہر نکلنے کے تمام راستے مہندم ہو جائیں تو انہیں ریسکیو (Rescue) کیا جاتا ہے۔ کشتیوں کے ذریعے‘ سٹریچر کی مدد سے‘ کندھوں پہ بٹھا کر یا چارپائیوں پہ اٹھا کر یا ہیلی کاپٹر وغیرہ کے ذریعے‘ تاکہ زندگی بچ سکے اور وہ ان محفوظ مقامات پر پہنچ سکیں جہاں انہیں پناہ مل سکے۔ خیموں اور کھانے پینے کا بندوبست ہو۔ یہ مرحلہ بے حد مشکل اور جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے تجربہ کار رضا کار یا فوج کے جوان آگے بڑھتے ہیں۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ یعنی ابتدائی امداد یا Relief کا کام شروع ہوتا ہے۔ محفوظ جگہ‘ خیمے‘ کھانا‘ کپڑے‘ کمبل‘ صاف پانی‘ دوائیاں‘ علاج‘ بچوں کے لیے دودھ اور دیگر غذائی ضروریات۔ بوڑھوں‘ معذوروں اور حاملہ خواتین کی ضرورتوں کا خیال۔ ریلیف کا یہ مرحلہ چند ہفتوں سے چند مہینوں تک کا ہو سکتا ہے۔ طویل اور صبر آزما۔
انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
اس مرحلے میں دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ ان بے گھر‘ بے یارو مدد گار لوگوں کے ان ذہنی اور جذباتی صدموں کا علاج بھی ضرور ی ہے جن سے یہ لوگ گزرے۔ ایک ماں نے اپنے بچے کو ڈوبتے ہوئے دیکھا اور کچھ نہ کر سکی۔ ایک بچے کے باپ کو پانی کا ریلا بہا کر لے گیا اور وہ روتا رہ گیا۔ ایک بھائی نے اپنی بہن کا ہاتھ تھاما لیکن یہ گرفت اس قدر مضبوط نہ تھی کہ منہ زور پانی کا مقابلہ کر سکتی۔ ہر طرف مدد کے لیے بلند ہوتی ہوئی آوازیں دم توڑتی رہیں اور یہ لوگ کچھ نہ کر سکے۔ چند لمحوں پہلے ہنستے مسکراتے‘ زندگی سے بھرپور لوگ گہرے پانی نے نگل لیے۔ یہ منظر ان کے ذہن پہ نقش ہو جاتے ہیں۔ ان مناظر کو کیسے مٹایا جائے۔ یوں دوسرے مرحلہ میں سوشل ورکرز‘ سائیکالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ کا کام بھی شروع ہو جاتا ہے اور یہ کام تیسرے مرحلے اور اس کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ یہ سب لوگ ان مصیبت زدوں کا جذباتی سہارا بنتے ہیں۔ پریشان حال لوگوں کو گلے لگاتے ہیں۔ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ آنسو پونچھتے ہیں۔ یہ سب کہنے میں آسان ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ کام انتہائی مشکل ہے۔ بعض اوقات ہمدردی کے یہ الفاظ بے جان سے دکھائی دیتے ہیں۔ کسی کو یہ کہنا کہ بچھڑنے والوں کو بھول جاؤ‘ بجائے خود ایک اذیت سے گزرنے کا نام ہے۔ ہنستا بستا‘ مسکراتا چمن‘ دیکھتے ہی دیکھتے خزاں کی نذر ہو جائے اور کچھ بھی باقی نہ رہے تو انسان پہ کیا گزرے گی۔
تیسرا مرحلہ مستقل بحالی یا Rehabilitation کا ہے۔ زندگی ختم نہیں ہوتی‘ اسے ازسرِ نو بھی تو شروع کرنا ہے۔ سیلابی پانی اترجائے‘ راستوں کی تعمیر مکمل ہو جائے اور پل وغیر ہ تعمیر ہو جائیں‘ فزیکل انفراسٹرکچر بن جائے تو شکستہ دل لوگ بوجھل قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنی بستیوں اور گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ اجنبی پناہ گاہ میں کوئی کب تک رہے۔ اس مرحلے کے دوران بھی چار حصے ہوتے ہیں:
۔1 ٹوٹے پھوٹے‘ شکستہ گھروں کی مرمت یا تعمیرِ نو، 2۔ مال مویشی کی خرید کے لیے مدد، 3۔ نئی فصل کی کاشت کے لیے کھاد‘ بیج‘ پانی وغیر ہ کی فراہمی، 4۔ چھوٹے کاروباروں کی بحالی اور زندگی کا نیا آغاز۔
مسجد میں اپنے بھائیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہم یہی سوچ رہے تھے۔ پاکستان کو بھی آج انہی تین مرحلوں سے گزرنا تھا۔ یہی حکمتِ عملی ہمیں بچا سکتی ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پہ چل کے ہمیں لوگوں کو بچانا ہے اور تعمیرِ نو کا سفر شروع کرنا ہے۔ ڈی جی خان کے اس نواحی علاقہ میں بھی یہی صورت حال تھی۔ ریسکیو اور ریلیف کا کام جاری تھا جو جلد ختم ہو جائے گا۔ ریسکیو (Rescue) اور ریلیف(Relief) کے بعد مستقلی بحالی یا Rehabilitation کا مرحلہ قریب تر ہے یا کچھ ہی دنوں بعد شروع ہونے والا ہے۔ یعنی تباہی اور بربادی کے ڈھیر سے ایک نئی دنیا کی تعمیر۔ اب ہمیں ان لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔ اگر ہم نے ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہ کیا‘ ان کے ٹوٹے ہوئے گھر تعمیر نہ کیے تو نہ صرف یہ ہمیشہ غربت کا شکار رہیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اپنی بستیاں چھوڑ کر شہروں کا رخ کریں۔ بدقسمتی سے ان میں سے کچھ گداگر بن جائیں گے‘ جرم کا راستہ اپنا لیں گے‘ دہشت گردی کی راہ پہ چل پڑیں گے اور کچھ اپنی قسمت پر روتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دیں گے۔ Rehabilitation یا مستقلی بحالی کے بارے میں کسے سوچنا ہے۔ معیشت کو کس نے سہارا دینا ہے۔ ریاست یا ریاست کے اداروں نے‘ جن کی یہ اولین ذمہ داری ہے یا کسی اور نے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اتنا بڑا کام صرف ریاست کے بس کا نہیں۔ ہمیں بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم خود بھی سوچنا ہے۔ ہم‘ جنہیں خدا نے بہت کچھ دیا۔ علم‘ دولت‘ تدبر‘ حکمت‘ وقت‘ صلاحیت‘ درد مندی۔ ہم کہ جنہیں الحمد للہ‘ دنیا کی ہر نعمت میسر ہے‘ دو وقت کے کھانے کی فکر نہیں۔ دوا کی فکر نہیں۔ چھت کی فکر نہیں۔ دکھ میں رفاقت اور غم میں تنہائی کا خوف نہیں۔ کیا ہم بھول گئے کہ یہ سب کچھ جو ہمیں ملا ہمارا حق نہیں‘ کسی کی عطا ہے۔ کسی کا انعام ہے اور آج اس عطا اور انعام میں سے کچھ حصہ کسی کو لوٹانے کا وقت ہے۔