30 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 4…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

یہ مختصر سرگزشت اُن چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
حکومت کی طرح اب پاکستان کے ہر شہری کو سوچنا ہے کہ یہ لوگ گندم نہیں بوئیں گے‘ کپاس نہیں بوئیں گے تو غربت کیسے کم ہو گی؟ قومی پیداوار کیسے بڑھے گی؟ کون نہیں جانتا کہ زرعی شعبے کو کس قدر نقصان ہوا۔ بیس لاکھ ایکڑ پہ کھڑی فصلوں کی تباہی‘ ملک بھر میں تیس فیصد کپاس اور چاول اور دس لاکھ جانور باقی نہ رہے۔ بیس ہزار مربع کلومیٹر زمین دریا برد ہو گئی۔70 کے قریب اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا۔ خوراک کی قلت‘ درآمدات میں اضافہ اور اس کے نتیجہ میں آنے والا مہنگائی کا سیلاب۔ گویا ایک سیلاب نہیں۔ یہ تو سیلاب در سیلاب ہے۔یہ باتیں ہر زبان پہ ہیں۔ انہی تفکرات میں گھرے ہم ڈی جی خان کی خاک چھانتے رہے۔ لغاری‘ کھوسہ‘ لاشاری‘ دریشک‘ بزدار‘ قیصرانی سرداروں کی سرزمین۔ لیکن یہاں بسنے والا ہر شخص تو سردار نہیں۔ نوے فیصد تو غلام ہیں۔ غلام ابنِ غلام۔ ان سرداروں کی رعایا۔ سردار وں کو دیکھ کر جن کا سر جھک جاتا ہے‘ نبض ٹھہر جاتی ہے اور زبان پہ مہر ثبت ہونے لگتی ہے۔
یہ دستور ِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
انسانیت میں بڑائی کا معیار تو تقویٰ ہے۔ ہم نے اس معیار کو بھلا دیا اور کوئی اور ہی راستہ اختیار کر لیا۔ کوٹ مٹھن کی طرح یہاں بھی ہمارے ساتھیوں نے دو مساجد کا انتخاب کیا جہاں ہمیں لوگوں سے ملنا تھا۔ مسجد کی مقدس فضا کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ایمان‘ توکل اور جذبۂ عبودیت۔ مسجد سے باہر اونچ نیچ ہے۔ سماجی درجہ بندی ہے اور مسجد میں برابری۔یہی وہ جگہ ہے جہاں بندہ و صاحب‘ محتاج و غنی ایک ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے تو اللہ کے رسولﷺ نے مسجد کو اپنا مرکز بنایا۔ ان دومساجد میں جمع ہونے والے پانچ سو کے لگ بھگ لوگوں سے مل کر دکھ کی کیفیت اور بھی بڑھ گئی۔ ان میں پردہ دار خواتین بھی تھیں‘ بچے‘ جواں ہمت نوجوان اور متفکر بوڑھے بلوچ۔ زندگی کی سختیوں نے ان کے چہروں کی شگفتگی اور ملاحت چھین لی تھی۔ سہمے ہوئے بچوں کو دیکھ کے بمشکل آنسوؤں پہ قابو پایا۔ گھروں کی تعمیر اور زراعت کے لیے سرمایہ۔ یہی اصرار تھا۔ یہی حاصلِ گفتگو۔
یہاں پر ہمارے ہمراہ پنجاب کے وزیرخزانہ محسن لغاری بھی تھے۔ انہوں نے بھی یہ باتیں سنیں۔ مجھے یقین ہے ان کے توسط سے یہ باتیں اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچیں گی۔ وہ اپنے ساتھیوں کو ضرور بتائیں گے کہ پاکستان کا غریب کسی اور شے کا نہیں دوستی اور رفاقت کا طلب گار ہے۔ اسے ”ووٹ‘‘ کے بجائے ایک انسان سمجھا جائے۔ باہمت اور باوقار۔ کوٹ مٹھن میں بھی قومی اسمبلی کے رکن سردار نصر اللہ خان دریشک ہمارے ساتھ تھے۔ انہوں نے بھی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں سے گفتگو کی اور ان کے چہروں پہ لکھی ہوئی داستان پڑھنے کی کوشش کی۔ لائیو سٹاک کے وزیر حسنین بہادر دریشک کا پیغام بھی ملا۔ وہ ریلیف کے کام میں کسی اور جگہ مصروف تھے۔
دردمند بلوچوں کے ساتھ یہ مختصر نشست ختم ہوئی لیکن دکھ اور درد کا سلسلہ ختم نہ ہوا بلکہ کچھ اور بڑھ گیا۔ شہر سے نکل کر ہمارا چھوٹا سا قافلہ کوٹ چھٹہ کے نواحی علاقوں میں جا پہنچا۔ ہم چاہتے تھے کہ سیلاب کے مارے‘ مصیبت زدہ خاندانوں سے خود ملیں۔ ہاتھ بھی ملائیں اور بچوں کے گلے بھی لگیں۔ ہم نے ان پھٹے پرانے خیموں پہ نگاہ دوڑائی جہاں یہ پناہ گزیں ہیں تو دل کانپ سا گیا۔ اردگرد بارش اور سیلاب کے پانی کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ بیسیوں لوگ خیموں میں پناہ لیے سڑکوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور بہت سے غیر سرکاری ادارے ان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ کو ئی ان کو دوائیاں دے رہاتھا۔ کوئی کھانے پیش کر رہا تھا۔ کوئی کپڑوں کا تحفہ لایا تھا۔ الحمدللہ! کسی شخص نے یہ شکایت نہیں کی کہ اسے کھانا نہیں ملا۔ کھانے کے بارے میں وہ خوش تھے‘ ادویات کے بارے میں بھی کسی حد تک اطمینان تھا۔ ایک نوجوان نے کہا: ہمیں صاف پانی کیسے ملے گا؟ کاش کوئی ہمیں نلکے لگا دے یاواٹر فلٹریشن پلانٹ دے دے۔ گندے پانی سے ہمارے پیٹ خراب رہتے ہیں۔ گھر گھر یرقان کے مریض ہیں۔ کاش کوئی آسمان سے برستے ہوئے اس صاف پانی کو محفوظ بنانے کا طریقہ سکھا دے اور ہم اگلی خشک سالی سے بچ جائیں۔ ایک بوڑھے شخص نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بارش سزا ہے لیکن میرا کہنا ہے کہ بارش سزا نہیں۔ ہمیں عقل اور فہم ملی لیکن ہم اس پانی کو ذخیرہ نہیں کرسکے۔ نہ بند بنا‘ نہ تالاب بنا اور نہ ہم کوئی اور راستہ ڈھونڈ سکے کہ بارانِ رحمت کو خشک سالی کے اُن دنوں کے لیے جمع کرسکیں جب ہم پانی کے ایک ایک قطرے کو ترستے ہیں۔
مجھے یاد آیا کہ صرف دو ماہ قبل میں کوہَ سلیمان اور ڈی جی خان کے قبائلی علاقوں میں انہی بلوچ بھائیوں کے ساتھ گھوم رہا تھا۔سخت گرمی۔ چلچلاتی ہوئی دھوپ۔ نہ سایہ نہ سائبان۔ اس وقت بارشیں نہیں ہوئی تھیں۔ لوگ پانی کے ایک ایک قطرے کی تلاش میں تھے۔ ہونٹوں کی طرح تالابوں کی بھی پپڑیاں جم چکی تھیں۔ ہم نے لوگوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا تھاکہ یہاں ایک سو تالاب بنائے جائیں جہاں بارش کا پانی ہمیشہ جمع رہے۔ ایسے کچھ تالاب پہلے سے موجود بھی تھے لیکن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے تھے اور کوئی ایساادارہ نہ آیا جو ان کی مرمت کرسکتا۔ اس روز دھوپ میں کھڑے ہو کرہم سب نے دعا مانگی کہ اے خدا! دھرتی کو سیراب کر دے۔ بارش دے دے۔ جانور اور انسان دونوں پیاسے ہیں۔ پرندوں کی زبان بھی حلق تک سوکھ چکی ہے۔ قدرت نے تو ہماری دعا سن لی لیکن ان دو ماہ میں ہم ایک بھی تالاب نہ بنا سکے۔ وسائل ہی اکٹھے نہ ہوئے۔ منصوبے بنتے رہے‘جگہیں تلاش ہوتی رہیں اور پھربارش نے آن لیا۔ کوہِ سلیمان پہ ہونے والی اس بارش کا پانی نیچے آیا تو بستیاں بہا کے لے گیا۔ہم سوچتے توہیں لیکن عمل کرنے میں دیر کردیتے ہیں۔ لوگ‘ بے چارے‘ راہ تکتے رہ جاتے ہیں اور کوئی ان تک نہیں پہنچتا۔ کوئی انہیں آواز نہیں دیتا‘ کوئی ڈھارس نہیں بندھاتا‘ کوئی وعدہ پورا نہیں کرتا‘ کوئی انہیں غم سے نہیں بچاتا۔
منیر نیازی نے یہ اشعار شاید کسی اور کے لیے کہے ہوں‘ لیکن مجھے لگا انہی بے سہارا لوگوں کے لیے کہے تھے:
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ‘ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں