30 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 6…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
چُوڑ جمالی میں لوگوں کا ایک جمِ غفیر تھا۔ اس جمِ غفیر میں بچوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی۔ ان میں سے کوئی بھی سکول نہیں جاتا۔ ان کا شمار ان دوکروڑ بچوں میں ہوتا ہے جنہیں کاغذ‘ قلم اور کتاب میسر نہیں۔ کبھی کسی نے انہیں سکول کا راستہ ہی نہیں دکھایا۔ علامتی طور پر کچھ تحفے‘ راشن‘ کپڑے اور نقد رقوم تقسیم کی گئیں۔ کراچی سے آنے والے این جے وی سکول کے بچے پیش پیش تھے۔ نذیر تونیو نے انہیں خصوصی دعوت دی تھی۔ انہیں سکول سے یہاں لانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ اس درد اور اخلاص سے آشنا ہوں جس کی بدولت یہ معاشرہ ایک بار پھر تعمیر ہوگا۔ سیاسی‘ سماجی اور معاشی انصاف۔ امانت‘ دیانت اور صداقت جیسے اصول۔ ہم تو یہ معاشرہ نہیں دیکھ سکے لیکن یہ بچے ایک دن ضرور دیکھیں گے۔
چُوڑ جمالی سے نکل کر ہم سجاول کی طرف روانہ ہوئے۔ یہاں ہمیں بحیرۂ عرب کے نواح میں واقع کئی بستیوں میں جانا تھا۔ تین گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم شاہ بندر کے نواح میں پہلی بستی میں پہنچے۔ اڑھائی تین سو لوگ مسجد میں موجود تھے۔ اس بستی میں اتنے ہی گھر ہوں گے۔ گھاس پھونس اور بانسوں سے بنے ہوئے گھر‘ لیکن ایک ترتیب اور سلیقہ ضرور نظر آیا۔ یہ گھر نہیں چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں تھیں۔ بارش نے ان جھونپڑیوں میں سے اکثر کو منہدم کردیا جو باقی بچیں ان کی چھتیں گر گئیں۔ مسجد البتہ مضبوط بنیادوں پہ کھڑی تھی۔ اس بستی کے تقریباً سب لوگ ماہی گیر تھے۔ سمند ر سے مچھلی پکڑنا اور پھر بیچ کر روزگار کمانا۔ کھلے سمندر میں معمولی کشتیوں پہ جاکے مچھلی پکڑنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ سمندری طوفان اور تیز ہوائیں۔ سمندر کی دنیا تو ایک اور ہی دنیا ہے۔ واپسی کا رستہ بھول جائے تو کوئی لوٹ کے نہیں آتا بس انتظار کا ایک دیا روشن ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ پیٹ پالنے کے لیے کچھ تو کرنا ہے۔
تعارف اور حال احوال جاننے کے بعد تحائف پیش ہوئے۔ دکھ کے باوجود جو شخص شکر ادا کرے‘ وہی اپنے رب کے قریب ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی لوگ تھے۔ ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد گھروں کی دوبارہ تعمیر کے بارے میں سوال جواب ہونے لگے۔ ان سب کا یہی کہنا تھا کہ اگر انہیں کچھ رقم مل جائے تو یہ ازسرِ نو گھر بنا کر خود کو محفوظ کر سکتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ عام حالات میں آپ کا گھر گر جائے تو آپ کیا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی دوست یا رشتہ دار سے کچھ رقم لے کر پھر سے تعمیر کر لیتے ہیں۔ تعمیر میں بھی سب ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں‘ یوں مزدوری کے اخراجات بھی بچ جاتے ہیں۔ ”ادھار لینے کے بعد کیا آپ وہ رقم واپس بھی دیتے ہیں‘‘۔ یہ میرا اگلا سوال تھا ” کیوں نہیں۔ کوئی ایسا بھی ہے جو ادھار واپس نہ کرے۔ ایک بار ادھار واپس نہ کریں تو پھر کون اعتبار کرے گا‘‘۔ سب نے سادگی سے یہی جواب دیا اور پھر جس دوست نے مشکل میں مدد کی ہو اس کو دھوکا کون دے گا۔ ہمارے بھی کچھ اصول ہیں۔ میں نے کہا: اچھا بتائیں اگر میں وہ دوست بن جاؤں اور ساٹھ‘ ستر ہزار یا ایک لاکھ روپے اس مشکل گھڑی میں پیش کردوں تو کیا آپ واپس کر دیں گے۔ جی ہاں! کیوں نہیں۔ یہ تو ہمارا فرض ہوگا۔ ہم دوستوں کی قدر کرتے ہیں اور وعدہ نبھانے والوں میں سے ہیں۔ اس جواب سے آپ کیا نتیجہ اخذ کریں گے۔ یقینا یہی کہ لوگوں کو بھکاری نہیں دوست بنانا چاہیے۔ ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہمیں آپ کے ادارے کے بارے میں علم ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگوں کے دوست ہیں۔ جو پیسے آپ ہمیں دے کے واپس لیں گے وہ کسی اور کے کام آئیں گے۔ ایک اور گھر بنے گا پھر ایک اور گھر۔ میرا مقصد پورا ہو چکا تھا۔ بس ایک سوال نے ساری حقیقت آشکار کردی۔ میں جان چکا تھا کہ یہ غریب مچھیرے‘ غریب ضرور ہیں لیکن کردار کے غریب نہیں۔
مختصر گفتگو کے بعد کچھ وقت ہم نے بستی کے ٹوٹے پھوٹے گھروں کو دیکھنے میں گزارا۔ زندگی کی بنیادی ضرورت کے علاوہ یہاں کچھ نہیں تھا۔ وہ جو غالب نے کہا ”گھر میں کیا تھا جو تیرا غم اسے غارت کرتا‘‘۔ ہاں امید کی روشنی ضرور موجود تھی جو وقتی طور پر مدھم ہو چکی تھی۔ اظہر حمید اور کامران اس دوران وڈیو بناتے رہے۔ بعد میں جب ہم نے دیکھا تو یہ ایک لازوال وڈیو تھی جس نے ہر طرف دھوم مچادی۔ اس وڈیو میں دکھائی دینے والے پاؤں‘ چہرے اور ہاتھ۔ عورتوں کے چہروں کی جھریاں‘ ٹوٹی ہوئی شکستہ جھونپڑیوں کے منظر‘ دکھ درد اور بے بسی میں چھپی مسکراہٹ۔ غم اور امید کا اس سے اچھا امتزاج کیمرے کی آنکھ نے کب دیکھا ہوگا۔ شاہ بندر نامی اس بستی میں پھر کوئی کامران پھر کوئی اظہر حمید کب آئے گا اور اس کہانی کو دوبارہ کب تصویر ملے گی۔ یہاں سے نکل کر ہم ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ایک اور بستی میں پہنچے۔ بہت زیادہ گھر‘ اردگرد بے آب و گیاہ زمین۔ کہیں کہیں پانی۔ اس بستی کا نام شاہ بندر تھا۔ پہلی سے زیادہ بڑی اور منظم۔ یہاں کے باسی بھی نیم گہرے سمندر میں کشتیاں لے جاکر مچھلیاں پکڑنے کا کام کرتے ہیں۔ سمندر میں پانی ہی نہیں رزق بھی ہوتا ہے۔ یہاں بھی گھروں کی وہی صورت حال تھی۔ کچھ مکمل طور پر شکستہ‘ کچھ نیم خستہ۔
بستی کے شروع میں بہت بڑا واٹر فلٹریشن پلانٹ نظر آیا۔ کسی نے بتایا کہ کروڑوں روپے کی لاگت سے بننے والا یہ پلانٹ ایک یا دو ہفتے چلا اور اس کے بعد پانچ سال سے بند پڑا ہے۔ نہ کوئی اسے دیکھنے آتا ہے اور نہ کوئی اس کی مرمت کرتا ہے۔ دیکھ بھال کے لیے سات آٹھ ملازم ہیں جنہیں تنخواہ ضرور ملتی ہے۔ نجانے یہ پلانٹ کس نے لگایا‘ کس کے کہنے پہ لگایا‘ کتنی قیمت ادا ہوئی‘ ملازم کہاں سے آئے اور پھر ایک اور سوال جو اظہر حمید نے پوچھا کہ اگر پانچ سال سے یہ پلانٹ کام ہی نہیں کررہا تو ملازم کیا کررہے ہیں۔ اظہر حمید امریکہ میں رہتا ہے‘ وہ ایسے سوال پوچھ سکتا ہے۔ اسے کیا خبر کہ اس بستی کے مکین یہ سوال نہیں پوچھ سکتے۔ پوچھیں گے تو ان کی زبان بند کردی جائے گی۔ صد ہا برس کے خوف اور غلامی کی زندگی نے بولنے کی جرأت بھی چھین لی۔ اس بستی کے لوگوں پہ ہی کیا موقوف‘ ایسے سوال پوچھنے کا یارا تو کسی کو بھی نہیں۔ کروڑوں اربوں روپے کے سرکاری وسائل یونہی ضائع ہو جاتے ہیں اور کسی کی جبیں پہ شکن تک نہیں آتی۔ نہ کوئی دکھ‘ نہ افسوس‘ نہ ملال۔ جون ایلیا یاد آنے لگے۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
وہیں لوگوں سے سنا کہ سیلانی ٹرسٹ نے اب اس بستی میں صاف پانی کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے‘ وہ بھی پاکستان نیوی کی درخواست پر۔ سیلانی ٹرسٹ کی خدمات کو کون نہیں جانتا۔ جو ادارہ لاکھوں افراد کو ہر روز کھانا کھلاتا ہو اسے بھلا کون دعا نہیں دے گا۔ اس ادارے کے بانی اور روح رواں مولانا بشیر قادری غیر معمولی جذبے سے خدمت کے کام پہ مامور ہیں۔ مختلف علاقوں میں ان کے دستر خوان لاکھوں افراد کو کھانے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان جیسا اخلاص بہت کم لوگوں میں نظر آتا ہے۔ یہی اخلاص مجھے یقین دلاتا ہے کہ سیلانی کے کنویں سے نکلا ہوا پانی خشک نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ کنواں کبھی بند ہوگا۔ اخلاص کا حاصل ہی کچھ اور ہے۔ اظہر حمید نے ایک بار پھر سرکاری فلٹریشن پلانٹ کو دیکھا اور پھر گہری خاموشی اختیار کرلی۔ اس خاموشی میں بھی بہت سے سوال تھے۔