30 Jan

Flood 2022 and reconstruction… what we saw part 7…سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو … ہم نے کیا دیکھا

یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
ہم‘ اظہر حمید یا بیرون ملک رہنے والے‘ اور اپنے وطن کی محبت میں بے چین‘ پاکستانیوں کو ان سوالوں کا کیا جواب دیں کہ حکومت اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام کیوں ہے۔ ہماری لغت میں احتساب کے معنی ہی کچھ اور ہیں۔ یعنی ایسے معمولی مجرموں کو جیل کی کوٹھڑی میں پھینک دو جو ہمارے ساتھ نہیں اور جو ہمارے ساتھ ہیں وہ آزاد ہیں کہ جو چاہیں گل کھلائیں۔
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
یہاں ہمیں ایک سکول بھی نظر آیا‘ جہاں استاد تو ہیں لیکن پڑھانے نہیں آتے۔ نجانے ان کی تنخواہ کون وصول کرتا ہے اور اگر وہ خود وصول کرتے ہیں تو ان کا ضمیر کہاں سویا ہوا ہے۔ ان بچوں کی قسمت میں جہالت کس نے لکھی ہے۔ یقینا ہم نے‘ یقینا ہم نے۔ کیوں کہ ان استادوں کے انتخاب کا جرم بھی تو ہم نے ہی کیا ہے۔
گاؤں کا چکر لگا کر ہم مسجد میں پہنچے۔ صاف‘ شفاف اور مقدس۔ مسجد میں موجود لوگوں کو میں نے غور سے دیکھا تو ان کے ہونٹ اور دانت سرخ نظر آئے۔ تلاوت اور سلام دعا کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔ پھر سے وہی باتیں۔ بارش‘ تباہی اور تعمیرِ نو کی جستجو۔ میں نے لوگوں سے ہونٹوں پر اس سرخی کی وجہ پوچھی۔ کہنے لگے کہ ہم گُٹکا کھاتے ہیں۔ ”گُٹکا‘‘ سپاری کتھا‘ چونا اور اس طرح کی کئی اور چیزوں کے ملانے سے بنتا ہے۔ یہ تمام اشیاء مضرِ صحت ہیں اور ایک نشہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ہر شخص‘ ہر ماہ دو سے تین ہزار روپے کا گُٹکا کھا جاتا ہے۔ چار سے پانچ سو روپے کے سگریٹ بھی پیتا ہے اور اتنی ہی رقم موبائل فون پر بھی خرچ کرتا ہے۔ گویا چار ہزار روپے ماہانہ کے لگ بھگ یہ لوگ ان غیر ضروری اشیاء پہ خرچ کرکے اپنی صحت کا نقصان بھی کرتے ہیں اور غربت کی گہری دلدل میں بھی گرتے ہیں۔ یہاں میں نے ایک اور سوال پوچھنے کی جرات کی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ قرض لینے کی صورت میں ان چار ہزار روپوں میں سے کیا وہ آدھی رقم ماہانہ اس قرض کی قسط کے طور پر ادا نہیں کر سکتے؟ مسکراتے ہوئے سب کا جواب اثبات میں تھا۔ سچے لوگ تھے۔ سادہ لوح۔ جھوٹ بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ یوں بھی سب مسجد میں بیٹھے تھے۔ لوگوں سے ایسی باتیں کرنا اور بات کی تہہ تک پہنچنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر ہم ان کے مسائل اور وسائل کا اندازہ نہیں لگا پاتے۔
سیکڑوں میل دور شہروں میں بیٹھ کر ان لوگوں کے بارے میں بنائی جانے والی رائے ضروری نہیں درست بھی ہو۔ غربت کو بعض اوقات ہم ایک رومانوی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا دل پسیج جاتا ہے اور ہم رحم کی ڈگر پہ چل نکلتے ہیں۔ تاریخ کا سبق البتہ یہ ہے کہ غریب پہ رحم کرنے کے بجائے اگر اسے دوست بنایا جائے تو وہ غربت کی دلدل سے جلد نکل آئے گا۔ اس کی عزتِ نفس برقرار رہے گی۔ اس کا سر نہیں جھکے گا اور وہ دنیا کے روبرو تن کر کھڑا بھی ہو سکے گا۔ وہ کسی وڈیرے کا غلام نہیں رہے گا اور اس کا بچہ بھی غلامی کا شکار نہیں ہوگا۔ تاریخ کا علم‘ جس سے ہم بے بہرہ ہیں‘ سچ کی تہہ تک پہنچنے کا نام ہے۔ ہم اگر جاننا چاہتے ہیں کہ دنیا ایسی کیوں ہے۔ مفلس‘ نادار اور عدم مساوات کا شکار‘ تو تاریخ پڑھنا پڑے گی۔ کوئی ہے جو تاریخ پڑھے اور سبق سیکھے۔ ہم نے غریب کو محض مجبور اور مقہور سمجھا۔ اس کے اندر صلاحیت کے بحر بے کراں سے غافل رہے۔ اس بحر کی تہہ سے کوئی موتی ہی نہیں نکالا۔ ترقی کا یہی وہ اصول ہے جس کا پرچار اختر حمید خان اور شعیب سلطان خان نے کیا اور جس کو سمجھے بغیر غربت کے خاتمے اور پائیدار ترقی کا خواب ممکن ہی نہیں۔
شام کے سائے گہرے ہونے لگے۔ کیا خوبصورت شام تھی۔ افق پہ ڈوبتا ہوا سورج اور خوشگوار ہوا کے جھونکے لیکن سارا ماحول سوگوار تھا۔ اس آفت نے سب کو رلا دیا تھا۔ اس گاؤں میں نیوی کا چھوٹا سا کیمپ بھی ہے اور دفتر بھی۔ کچھ دیر وہاں رکے۔ اس علاقے کے سماجی اور دفاعی مسائل پہ بھی بات ہوئی۔ ہمیں علم ہوا کہ شاہ بندر اور قریب و جوار کی دیگر کئی بستیوں کے مچھیرے بھارت کے ظلم و ستم کا شکار بھی ہوتے رہے ہیں۔ سجاول‘ گھوتارو‘ میر پور باتھورو‘ جاتی‘ درو۔ ان کی کشتیاں غلطی سے کھلے سمندر میں جا پہنچیں تو بسا اوقات بھارتی فوج کے نرغے میں گھِر جاتی ہیں۔ بے رحم دشمن کے دام سے بچ نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ مچھیرے کئی کئی سال بھارت کی جیل میں قیدر ہتے ہیں۔ کوئی قسمت والا ہو تو بچ کے آ جاتا ہے ورنہ چند روز بعد اس کی یادوں کے دیے بھی بجھ جاتے ہیں۔ رئیر ایڈمرل جاوید اقبال نے مقامی دفتر میں بیٹھ کر ایک خوبصورت کتاب پیش کی۔ وائس ایڈمرل افتخار راؤ کی لکھی ہوئی یہ کتاب نہ صرف کوسٹل ریجن کی تاریخ پر مبنی ہے بلکہ اس میں عزم و ہمت اور بہادری کی اَن گنت کہانیاں بھی رقم ہیں۔
رات گئے کتاب کے کچھ اوراق کی ورق گردانی کی تو ایک ناقابلِ یقین کہانی روبرو تھی۔ شاہ بندر اور ”ہارامی دھورو‘‘ نامی بستیوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی بہت سی کریکس (Creeks ) ہیں۔ ان کریکس کو اردو میں ندی‘ نالہ یا دریا کا حصہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ کریکس تک جانے کے لیے بھارتی سمندر سے ہوکے گزرنا پڑتا ہے۔ 2005ء میں وائس ایڈمرل افتخار اور ان کے ساتھیوں نے ایک غیرمعمولی اور انتہائی پُر خطر فیصلہ کیا۔ انہوں نے سوچا کہ مچھیروں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کریکس کو آپس میں ملادیا جائے۔ یعنی کسی طرح ایک نہر کھودی جائے جوان کریکس کو جوڑ دے اور ہمارے مچھیروں کو بھارتی سمندر میں جائے بغیر مچھلی پکڑنے کی سہولت مل جائے۔ گہرے دلدلی علاقے اور دشمن کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ تقریباً ناممکن تھا۔ کیچڑ اور دلدل کی وجہ سے بھاری مشینری بھی نہ جا سکتی تھی۔ اخلاص‘ اخلاص اور اخلاص۔ بحریہ کے بہادر افسران اور جوانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ جان پر کھیل کر تیشوں اور بیلچوں کے ذریعے یہ نہر کھودیں گے تاکہ ان کے ہم وطن مچھیرے محفوظ رہیں اور ان کا روزگار چلتا رہے۔ رات کی تاریکیوں اور موسم کے سرد و گرم سے بے نیاز ہو کر انتہائی راز داری سے ایک نہر وجود میں آئی۔ ایک نہر فرہاد نے کھودی تھی۔ کسی کے عشق میں گم ہو کر۔ ایک نہر یہ ہے جو وطن کی محبت میں تعمیر ہوئی۔ اس نہر کا نام Marine Canal رکھاگیا۔ وائس ایڈمرل افتخار نے جس طرح یہ کہانی لکھی اسے پڑھ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جرات اور استقامت کی یہ عظیم مثال کئی ماہ کی محنت کے بعد اپنی تکمیل کو پہنچی اور دشمن کو خبر تک نہ ہوئی۔ میرنے کہا تھا:
کوہ کن کیا پہاڑ توڑے گا
عشق نے زور آزمائی کی
ہاں یہ نہر نہیں‘ عشق و جنون اور سرمستی کی کہانی ہے جسے سن کر سرنگوں ہونے لگتے ہیں۔ اس نہر کا افتتاح 2012ء میں ہوا۔ اس کی بدولت نہ صرف روزگار عام ہوا بلکہ مچھیروں کے گم ہو جانے کے حادثات بھی کم ہو گئے۔ شاہ بندر سے لے کر گھوتا رو‘ میرپور باتھورو‘ جاتی‘ درو اور ہارامی دھورو تک کے لوگ انہی قربانیوں کی وجہ سے پاکستان بحریہ سے محبت کرتے ہیں۔ پھول بوئیں تو پھول ہی اُگتے ہیں۔ مواخات کا پیغام اسی لیے تو مقبول ہوا‘ اسی لیے تو آج ہم سب یہ عَلم اٹھائے یہاں کھڑے تھے۔