042-111-(GIVING) 448464
amjadsaqib1@gmail.com
0
Register Login
No apps configured. Please contact your administrator.

Login with your site account

No apps configured. Please contact your administrator.

Lost your password?

Not a member yet? Register now

AmjadSaqib.com AmjadSaqib.com
  • Home
  • About
  • Publications
  • Articles
    • Daily Dunya
    • Daily Nai Baat
    • Flood Campaigns
  • Media
    • Media
  • Contact us
Back
  • Home
  • About
  • Publications
  • Articles
    • Daily Dunya
    • Daily Nai Baat
    • Flood Campaigns
  • Media
    • Media
  • Contact us
  • Home
  • Blog
  • Articles
  • Malu Masali Aur Yakam May-مولو مصلی اور یکم مئی

Articles

01 May

Malu Masali Aur Yakam May-مولو مصلی اور یکم مئی

  • By Rehan Shabbir Khan
  • In Articles, Daily Dunya
  • 0 comment

یکم مئی‘ مزدوروں کا عالمی دن۔ یہ تحریر ایک مزدور کے شب و روز کی کہانی ہے۔
بہت عرصہ پہلے ایک بار چند پولیس افسران نے مقدمہ قتل میں نامزد ایک ملزم کے گھر تلاشی لینا چاہی تو جواب ملا خبردار! یہ چودھریوں کا گھر ہے۔ کسی مولو مصلی کا نہیں۔ اس پر پولیس افسران نے ہاتھ جوڑے‘ معافی مانگی اور یہ کہہ کر واپس لوٹ آئے کہ ہمیں علم نہ تھا کہ”یہ چودھریوں کا گھر ہے۔ مولو مصلی کا گھر ہوتا تو کب کے داخل ہو چکے ہوتے “۔
مولو مصلی جس کا اس حقار ت آمیز لہجے میں ذکر ہوا کون بدنصیب ہے؟ اس کے گھر اور چودھریوں کے گھر میں کیا فرق ہے؟ کیا اس کی ماں‘ بہن اور چودھریوں کی ماں‘ بہنیں برابر نہیں۔ مولو مصلی کے گھر میں تو پولیس بلا دریغ گھس سکتی ہے لیکن چودھریوں کے گھر پہ دستک دے تو محافظ سینہ تان کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس تحقیر آمیز لہجے پہ نہ تو کسی نے چودھریوں سے باز پرس کی اور نہ کسی نے پولیس سے پوچھا کہ ان کے نزدیک چودھری اور مصلی یکساں کیوں نہیں؟مالک کو مزدور پہ‘گورے کو کالے پہ‘ امیر کو غریب پہ اور چودھری کو مصلی پہ فوقیت کیوں حاصل ہے……چند الفاظ پر مشتمل یہ محض ایک خبر نہیں بلکہ ایک المیہ ہے جو ہمارے سیاسی و معاشی نظا م اور سماج کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔ اس خبر میں صدیوں سے جاری اس ظلم کی ایک جھلک ملتی ہے جو آج کروڑوں مولو مصلیوں کا مقدر بن چکا ہے۔
چودھری اور مولو مصلی دو افراد یا دو گھرانوں کا نام نہیں بلکہ زندگی کی دو زندہ حقیقتیں ہیں۔ چودھری معاشرے کے طبقہ بالا کی نمائندگی کرتا ہے اور مولو ان کروڑوں افراد کا نام ہے جو چودھریوں‘ ملکوں‘ خانوں اور سرداروں کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وہ بدنصیب جو ریاستی اداروں سے ہر روز چھتر کھاتے ہیں۔مولو مصلی نے جب سے جنم لیا نا انصافی کی صلیب پہ لٹک رہا ہے۔ اس کی کہانی انسانی ضمیر پہ سب سے بڑا تازیانہ ہے۔ اس کا وجود انسانیت پہ عائد بدترین فرد جرم ہے۔ اس کے چہرے پہ لکھی ہوئی داستان ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں بینائی سے محروم ہو چکی ہیں اور چودھری اس کی پگڑی کو پھندا بنا کے اسے بازاروں میں گھسیٹتے پھرتے ہیں۔
بے چارے مولومصلی کے ذکر پہ ہی کیا موقوف‘ اس کی ماں‘ بہن کا رتبہ بھی گلیوں کی خاک سے کم تر ہے۔ حوا کی ان بیٹیوں کی کوئی عزت نہیں۔ وہ تو مٹی کا ایک کھلونا ہیں یا گوشت کا بے جان لوتھڑا‘ جن کا ذکر حقارت اور حصول عیش کے سوا اور کسی انداز میں نہیں ہوتا۔ یہ کم نصیب گھروں‘ کھیتوں‘ ملوں اور فیکٹریوں کو آباد کرتی ہیں۔ ان کی محنت اور مشقت صحرا و دمن سے کوچہ بازار تک ہر جگہ پھول اگاتی ہے لیکن ایک روز کوئی چودھری‘ کوئی ملک یا کوئی بدمعاش ان کی عزت کو پامال کرکے انھیں دیدۂ عبرت نگاہ بنا دیتا ہے۔ نہ ان کا بچپن اپنا‘ نہ جوانی اپنی‘ نہ بڑھاپا اپنا‘ قطرہ قطرہ‘قریہ قریہ ان کی روح اور جسم نیلام ہوتا ہے۔ یہ نیلامی مکمل ہوتی ہے تو یہ مٹی اوڑھ کے ہمیشہ کے لیے سو رہتی ہے۔
مولو مصلی اور اس کی ماں‘ بہنوں کی طرح اس کے بیٹے کی کہانی بھی اتنی ہی دردناک ہے۔ اس کے مقدر میں بھی بڑا ہوکے مولو مصلی بننا ہی لکھا ہے۔ وہ کولہو کا بیل ہے جو کبھی چودھری نہیں بن سکتا۔ مولو کے بیٹے نے ایک بار اپنی ماں سے پوچھا ”اماں گاؤں کا چودھری مر جائے تو کون چودھری بنے گا؟ اس کا بیٹا‘ ماں نے جواب دیا۔ وہ بھی مر جائے تو…… پھر اس کا بیٹا۔ وہ بھی مرجائے تو……پھر اس کا بیٹا۔ وہ بھی مرجائے تو ……پھر اس کا بیٹا۔ ماں جو اپنے لختِ جگر کے ذہن میں کلبلاتے ہوئے سوالوں تک دسترس پا چکی تھی تکرار سے تنگ آکے کہنے لگی ”بیٹا گاؤں کا گاؤں مرجائے لیکن تو چودھری نہیں بن سکتا۔ تمھیں یقین کیوں نہیں آتا کہ کوئی کمی‘ کوئی مصلی‘ کوئی چوہڑا‘ کوئی چمار اس مقام تک پہنچنے کے قابل نہیں“۔ دل گرفتہ ماں نے جو کہا وہ سچ ہے۔ وہاں پہنچنا تو دور کی بات وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ مصلیوں کا چودھری بن کے بھی چودھریوں کا مصلی ہی رہے گا یا پھر اگر قسمت نے یاوری کی تو ان کی حویلی کا پہریدار بن کران کی حفاظت کے لیے اپنی جان دیدے گا‘ جنہوں نے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ گویا مولو مصلی اپنے اور اپنی اولاد پر مسلط اس ظالمانہ نظام کا محافظ بھی خود ہی ہے۔ اس نظام کی بنیادیں بھی اسی کے خون اور پسینے پہ استوار ہوتی ہیں۔ جب وہ ضرورت کے ہاتھوں اندھا ہوتا ہے تو کرائے کا سپاہی بن کے چودھریوں کی بندو ق اٹھا لیتا ہے اور پھر اس بندوق کی گولیاں جن سینوں میں پیوست ہوتی ہیں ان کا نام بھی مولو مصلی ہی ہوتا ہے۔چودھریوں کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ وہ مصلیوں سے چھینی ہوئی دولت کی حفاظت کے لیے بھی مصلی ہی رکھتے ہیں تاکہ کوئی سر پھرا پنا مال واپس لینے آئے تو اپنے ہی بھائی بندوں کی چلائی ہوئی گولی کا نشانہ بن جائے۔ استاد دامن نے مولو مصلی کی اسی بے نیازی کی طرف اشارہ کیا تھا
مال کسے دا تے رات نو ں جاگ جاگ
چوکیدار پئے ہُو کراں ماردے نیں
تہی دامن مولو مصلی کی ان” ہُوکروں“ میں کتنا درد ہے اس کا شعور کوئی مشکل کام نہیں۔
مولو مصلی‘ اس کی ماں‘ بہنیں اور اس کی اولاد وہ اجڑی ہوئی مخلوق ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جن کی کہیں شنوائی نہیں۔ نہ تھانہ‘ نہ کچہری‘ نہ اسمبلی‘ نہ سینٹ۔ ان کی فریاد کہیں نہیں پہنچتی۔ نہ زمین انھیں پناہ دیتی ہے نہ آسمان ان کا سایہ بنتا ہے۔ ان کے دامن میں پیوند ہی پیوند لگے ہیں۔نہ روٹی‘ نہ کپڑا‘ نہ مکان‘ نہ عزت‘ نہ آبرو‘ نہ اطمینان۔ جمہوریت اور مساوات کے دعوے داروں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ یہ لوگ خلق ِ خداکی محبت میں صبح و شام آنسو بہاتے ہیں۔ تنی ہوئی گردنیں اور کلف لگے ہوئے پیراہن۔ اس ہجوم میں مولو مصلی سر جھکائے کسی مجرم کی طرح کھڑا ہے۔ وہ ترقی‘ خوشحالی
اور مساوات کے چرچے سن رہا ہے۔ تعلیم‘صحت‘ سڑکیں‘ پانی‘ بجلی‘ اکیسویں صدی ……لیکن اسے نہ سکول درکار ہیں‘ نہ ہسپتال‘ نہ موٹر گاڑیاں‘ نہ صاف پانی اور بجلی کے قمقمے۔ ان تما م باتوں سے بے نیاز وہ صرف یہ سوال پوچھتا ہے کہ کب تک پولیس اس کے گھر گھستی رہے گی۔ کب تک چودھری اسے حقارت آمیز لہجے میں مولو مصلی کہہ کے پکاریں گے۔ ظلم کا یہ نظام کس روز بدلے گا۔ اس کی تاریک زندگی میں انصاف کا سورج کب طلوع ہو گا لیکن مولو مصلی کو یہ حقیقت معلوم نہیں کہ غلام کو اس کا حق سوال سے نہیں بغاوت سے ملتا ہے۔ جس روز مولو مصلی کو معلوم ہو گیا کہ آزادی مانگی نہیں چھینی جاتی ہے وہ قیامت کا روز ہو گا۔لوگو! اس روز سے ڈرو۔ حق دار کو اس کا حق لوٹانے میں دیر نہ کرو۔ مولو مصلی کو اس کی پگڑی اور اس کی ماں‘ بہن کو ان کا آنچل واپس کر دو‘ وگرنہ وہ دن دور نہیں جب وہ خود تمہارے تخت و تاج روند ڈالے گا۔ اس روز خون کے چھینٹے اڑیں گے اور چوراہوں پہ گڑی صلیبوں پہ نازک بدن جھولتے نظر آئیں گے۔
یکم مئی کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔

  • Share:
Rehan Shabbir Khan

You may also like

Khas hai Tarkeeb mein Qaum e Rasool e Hashmi-خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولؐ ہاشمی

  • October 3, 2019
  • by Rehan Shabbir Khan
  • in Articles
محاذ ِ جنگ پر بیٹھا ہوا سپاہی لڑتا ہے یا قوم جنگ کرتی ہے؟ بھارت کا مقابلہ کرنے سے...
Tera Lutiya Sheher Bhanbhor-تیرا لٹیا شہر بھنبھور
October 3, 2019
Dr. Saeed Akhtar-ڈاکٹر سعید اختر
October 3, 2019
Kia Ghurbat Khatam Ho Sakti hai?-کیا غربت ختم ہوسکتی ہے؟
May 29, 2017

Leave A Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Posts

Occupational segregation can also help prevent substitution ranging from some other groups, in this case involving the genders
28Jan,2023
Together detailed expertise in the brand new posting world, Caroline Sheldon centered her very own institution three decades in the past
28Jan,2023
Conditions Having Quick Possibilities For Sensuous Thai Lady
28Jan,2023

Get in touch

042-111-GIVING (448464)

amjadsaqib1@gmail.com

19 Civic Center, Sector A2, Township, Lahore, Pakistan

HOME

  • Dr Amjad Saqib
  • Contact us
  • Articles
  • Book Shop
  • Privacy Policy
  • My Account

Social Media

  • Facebook
  • Twitter
  • Linkedin

Social Media

  • Instagram
  • Youtube

Powered by BSource.

  • Exchanges & Refunds
  • Terms & Conditions
  • Contact us