03 Oct

Khas hai Tarkeeb mein Qaum e Rasool e Hashmi-خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولؐ ہاشمی

محاذ ِ جنگ پر بیٹھا ہوا سپاہی لڑتا ہے یا قوم جنگ کرتی ہے؟
بھارت کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہمیں اس سوال کاجواب بھی ڈھونڈنا ہے۔ قوم کیا ہے اور کیسے وجود میں آتی ہے؟ کیا ہم بکھرے ہوئے لوگوں کو قوم کہہ سکتے ہیں؟ کوئی انبوہِ کثیر‘ کوئی ہجوم ِبے پناہ‘ کوئی جم غفیر ……دنیا میں سیکڑوں قومیں آباد ہیں۔ ان کا وجود کیسے عمل میں آیا؟ کیا یہ ہمیشہ سے تھیں؟ کیا یہ ہمیشہ رہیں گی؟ کیا کسی نے کہا ”کھل جا سم سم“ اور ایک قوم بن گئی یا پھر یہ صدہا برس کے عمل کا نتیجہ ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں ہی ہمارے مستقبل کا راز پنہاں ہے۔کیا ہم ایک قوم ہیں؟اس ضمن میں کچھ مفکرین کی آراء ہماری رہنمائی کرسکتی ہیں۔
مغرب کے ایک دانش ور گلکرائسٹ کا کہنا ہے کہ قومیت ایک ایسا روحانی احسا س ہے جو عام طور پر ان لوگوں میں پیدا ہوتا ہے جن کا تعلق ایک ہی نسل سے ہو۔جو ایک ہی علاقہ میں رہتے ہوں۔ ان کی زبان مشترک ہو‘ مذہب مشترک ہو‘ تاریخ ایک ہو‘ روایات ایک جیسی ہوں‘مفادات میں یکسانیت ہو۔ وہ محبت کے باہمی رشتوں میں منسلک ہوں اور اتحاد ان کی منزل ہو۔
ریمزے میور(Ramsay Muir)‘ایک اور مشہور مفکر‘کا کہنا ہے کہ قومیت کے جذبہ کی بنیاد تاریخی عوامل ہوا کرتے ہیں۔ ان مصیبتوں کی یاد جو مل کر جھیلی گئیں‘ ان فتوحات کی یاد جو مشترکہ طور پر حاصل کی گئیں‘ ان محبوب شخصیات کی یاد جن کی صورت میں لوگوں کو اپنے آدرشوں کی تجسیم نظر آتی ہے‘ ان مقدس مقامات کی یاد جن سے تاریخ کا کوئی اہم واقعہ وابستہ ہو۔گویا حلقہ در حلقہ‘ یادوں کی ایک زنجیر ہے جو منتشر افراد کو قوم بنا دیتی ہے۔ میور کایہ بھی کہنا ہے کہ زبان کو قوم کی تشکیل کا سب سے اہم عنصر سمجھنا چاہیے۔ زبان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں جو لوگوں کو متحد کرسکے۔ ایک اور مفکر ارنسٹ بارکر(Earnest Barker) کے نزدیک قومیت کی تشکیل میں ایک مخصوص خطہ ء زمین زبان سے زیادہ اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ زبان‘ مذہب‘ کلچر‘ تاریخ‘ معاشرتی رویوں کی ہم آہنگی قومیت کے اہم ستون ہیں لیکن اس کی بنیاد بہرحال خطہ ارضی ہی ہے۔
مغرب میں ایسے مفکرین کی بھی کمی نہیں جو قومیت کو مادی بنیادوں سے بلند ہو کر روحانی پہلوؤں میں ڈھونڈتے ہیں۔ فرانسیسی مفکر ریناں (Renan) کا کہنا ہے کہ کسی بامقصد انسانی اجتماع کی تشکیل میں بنیادی اہمیت انسانوں ہی کو حاصل ہونی چاہیے‘ کوئی مادی چیز(زمین‘ زبان‘ خون) انسانوں (فکر شعور‘ ارادہ‘ روح‘ جذبہ‘ ضمیر‘ عقیدہ) کا بدل نہیں ہوسکتی۔ریناں یہ بھی کہتا ہے کہ جو چیز ایک قوم بناتی ہے وہ ایک زبان کابولنا یا ایک نسل سے تعلق رکھنا نہیں بلکہ یہ امر ہے کہ ماضی میں کچھ عظیم مقاصد کو باہم متحد ہوکر حاصل کیا گیا ہو اور مستقبل میں بھی ایسا کرنے کی خواہش موجود ہو۔
سپنگلر(Spengler) نامی ایک اور مفکر بھی قوموں کے لیے مادی بنیادوں کے بجائے روحانی احساس کو زیادہ اہم سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قومیں لسانی ہو تی ہیں‘ نہ سیاسی اورحیاتیاتی بلکہ وہ روحانی اکائیاں ہیں۔ ایک اور دانشور‘ گارنر(Garner) کا کہنا ہے کہ قومیت اپنی روح کے اعتبار سے ایک جذبہ ہے۔ ایک قوم کے لوگ اپنے یقین کے مطابق خود کو مضبوط رشتوں اور تعلقات میں بندھا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ یہ رشتے نہ صر ف ہمیں یکجا کرتے ہیں بلکہ دوسرے سے ممتاز بھی بناتے ہیں۔ان رشتوں میں مشترکہ مفادات کا احسا س بھی ملتا ہے۔ ان لوگوں کی قربانیاں بھی مشترک ہوتی ہیں۔ اپنی فتوحات اور ہیروز کو یاد کرکے ان کے سینے احساس تفاخر سے معمور ہو جاتے ہیں۔ مشہور اشتراکی رہنما جوزف سٹالن(Joseph Stalin) نے ایک اور نقطہ ئ نظر پیش کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ قوم‘ زبان‘ خطہ‘ اقتصادی زندگی اور نفسیاتی خصوصیات کی یک جہتی کی بنا پر تاریخی ارتقاء کے نتیجے میں وجود میں آنے والا ایسا گروہ ہے جو اپنا اظہار ثقافتی طور پر بھی کرتا ہے۔
ان تمام خیالات سے بھی قوم کی کوئی حتمی تعریف متعین نہیں ہوتی تاہم قومیت کے ترکیبی عناصر کی ایک فہرست مرتب ہوجاتی ہے۔ ان ترکیبی عناصر میں کیا کچھ شامل ہے۔ زبان کا اشتراک‘ خون یا نسل کا اشتراک‘ خطہ ء ارض کا اشتراک‘ یکساں ماضی اور روایات کا اشتراک‘ مذہب اور عقیدے کا اشتراک‘ نفسیاتی اور ثقافتی ہم آہنگی یااقتصادی یک جہتی وغیرہ وغیرہ۔
آیئے ہم غور کریں کہ ان عناصر ِ ترکیبی میں سے کون سے عناصر ایسے ہیں جو پاکستان میں بسنے والے بیس کروڑ لوگوں کو متحد کرکے قوم بنا سکتے ہیں۔ عقیدہ‘ زبان‘ خطہ‘ کلچر‘ تاریخ‘ مل کر لڑی گئی جنگیں‘ اقتصادی مفادات‘ مشترک ہیرو‘ یکساں دشمن‘ دکھ اور صدمے‘ خوشیاں اور خواب…… جب تک ہم ایک قوم نہ بنے دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ جنگ ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی‘اس کے پیچھے وہ مضبوط احساس چاہیے جو افراد کو ذاتی غرض و غایت سے بلند کرکے ایک قوم بنا دیتا ہے۔ سرحد پہ جان دینے والا سپاہی تو محض اس احساس کا پرتو ہے۔
کوئی ہے جو ہمیں یہ احساس دے کر ایک قوم بنا دے۔ کوئی ورجل‘ کوئی ہومر‘ کوئی اقبال‘کوئی جارج واشنگٹن‘ کوئی مصطفےٰ کمال پاشا‘ کوئی محمد علی جناحؒ یا پھر یوں ہے کہ پہلے ہمیں جنگ کی بھٹی میں گر کر راکھ ہونا پڑے گا اور پھر کبھی اس راکھ سے کوئی قوم جنم لے گی۔کوئی ہے جو سوچے اور تدبر کی راہ اپنائے۔
(اس کالم میں دیئے گئے حوالہ جات تاریخ اور سیاسیات کے پروفیسر محترم ڈاکٹر عبدالقادر خان کی ایک کتاب سے مستعار لیے گئے ہیں)