20 Feb

Air University-ایئریونی ورسٹی

”ایئر فورس کے ویلفیئر فنڈز صرف اسلامی بنکوں میں رکھے جائیں گے“۔ ایئر چیف مارشل‘ طاہر رفیق نے جب یہ بات کہی تو ایک لمحہ کے لیے یقین نہ آیا۔ پھر یوں لگا جیسے ان کے دفتر میں روشنی سی پھیل گئی ہو۔ ایئر ہیڈ کوارٹر میں چیف کا خوب صورت کمرا‘ جس کی سادہ آرایش دل کو بھا رہی تھی‘ بقعہئ نور بن گیا۔ ایئر چیف نے اور بھی بہت سی باتیں بتائیں۔ شستہ اور دلگداز۔ ان کے لہجے میں شائستگی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے ایک درد مند شخص اپنے قبیلہ کے بارے میں متفکر ہو۔ ”میں چاہتا ہوں فضائیہ کے جوان اور ان کے اہلِ خانہ تعلیم اور صحت کے گھمبیر مسائل سے بے نیاز ہوں“۔ ان اخلاقی اقدار کا تذکرہ بھی ہوا جو ہمارا اثاثہ تھیں لیکن اب کہیں کھو گئیں۔ اخوت‘ ایثار‘ مہربانی۔ یہ شخص کتنا درد مند ہے اور کتنا منکسر بھی۔ نجانے کس نے کہا”میرا انکسار ہی میری سربلندی ہے اور میری سربلندی ہی میرا انکسارہے“۔دنیا کی بہترین فضائی قوت کا سربراہ اس بات پہ آزردہ تھا کہ ہم بحیثیت قوم علم کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔ ”ہم نے فضائیہ میں بچوں کی تعلیم کے لیے ایک قرضِ حسن فنڈ بھی بنا رکھا ہے۔ یہ بچے ہیرے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے یہ گلی کوچوں کی خاک بن جائیں“۔ ایک بہادر شخص اپنی کہانی سناتا رہا۔ مرگلہ کی خوب صورت پہاڑیوں کے منظر‘ چیر کے بلند درخت اور زمستانی ہواؤں سے کمہلایا ہوا سبزہ۔کچھ ہی دیر میں بارش بھی ہونے لگی۔
ایئر چیف طاہر رفیق نے ابتدائی تعلیم سنٹرل ماڈل سکول لاہور سے حاصل کی۔ اس وقت یہ سکول ایک منتخب ادارہ ہوا کرتا تھا۔ بڑے بڑے لوگوں کے بچے یہیں پڑھتے تھے۔ یہ بڑے بڑے لوگ اور ان کے بچے اب کہیں اور چلے گئے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی حکومت کے سکولوں کی شان و شوکت بھی رخصت ہو گئی ہے۔ طاہر رفیق اسی شان و شوکت اوراسی درخشاں روایت کا امین ہے۔ کیا اب سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچے ”چیف“ بن سکتے ہیں۔”ایں خیال است و محال است و جنوں است“۔ مجھے اس روز دراصل ائیر یونی ورسٹی میں طلبا و طالبات سے گفت گو کرنا تھی۔ بہت سے لوگوں کو شاید خبر نہیں کہ کچھ ہی سال قبل وجود میں آنے والی یہ یونی ورسٹی بڑی تیز ی سے اپنا مقام پیدا کررہی ہے۔ ایئر چیف کی سرپرستی میں چلنے والی یہ یونی ورسٹی سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا اہم سنگ ِ میل ہے۔ ابھی سے اس کا شمار پاکستان کی سات بہترین یونی ورسٹیوں میں ہونے لگا ہے۔ الیکٹریکل‘ میکاٹرونکس‘ میکینکل‘ ایرو سپیس‘ ایوی اونکس اور بہت سے دیگر سائنسی علوم۔چار ہزار طالب علم‘ ڈیڑھ سو سے زائد استاد جن میں نصف پی ایچ ڈی۔ طالب علموں میں ایئر فورس کے نوجوان بھی ہیں اور سویلین بھی۔تنظیم‘ تربیت اور تدبر کا بہترین امتزاج۔ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اعجاز ملک نے یہ باتیں بتائیں تو ان کے لہجے میں اطمینان کا احساس نظر آیا۔
ہم ڈاکٹر معین اعزاز اور ڈاکٹر ابراہیم حنیف کی معیت میں آڈیٹوریم پہنچے تو دو سو کے لگ بھگ طالب علم موجود تھے۔ مجھے اعتراف ہے کہ اتنے اچھے سامع بہت کم نظر آتے ہیں۔ ہمہ تن توجہ ہمہ تن گوش۔ ان کی چمکتی ہوئی پیشانیوں سے جگ مگ ہونے لگی۔ گفت گو ختم ہوئی۔ ان کے سوال ان کی جستجو کے مظہر تھے۔ یونی ورسٹی کی عمارت بہت خوب صورت ہے لیکن عمارت ہی تو یونی ورسٹی نہیں ہوتی۔ مجھے لگا عمارت میں فکر ِ فردا کے بیج بھی ہیں۔ یہی بیج تناور درخت بنیں گے۔ یہی برگ و بار لائیں گے۔”اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں“۔
ایک طالب علم کہنے لگا”تبدیلی کیسے آئے گی“۔ دوسرے نے پوچھا”غربت کب ختم ہو گی“۔ تیسرے نے کہا”اخلاقی زوال کا کیا علاج ہے“ اور پھر گفت گو کا دامن پھیلتا چلاگیا۔ مجھے کچھ کہنا نہیں پڑا۔ تمام سوالوں کے جواب انہوں نے خود ہی دے دیے۔ مکالمہ بہت سے رازمنکشف کرتا ہے۔ افسوس ہم مکالمے کے عادی نہیں رہے۔ ہم گفت گو اس وقت کرتے ہیں جب کوئی اور راستہ نظر نہ آئے۔ افسوس یہ کم نگاہی۔ ایئر یونی ورسٹی میں البتہ ایک نئی روایت جنم لیتی ہوئی نظر آئی۔ میں ڈاکٹر ابراہیم کا مشکور تھا کہ ان کی بدولت اتنے اچھے ادارے سے تعارف ہوا اور پھر اس شخص سے ملنے کا موقع ملا جو پاکستان کی فضاؤں کا محافظ بھی ہے۔ جس کے ساتھی جان ہتھیلی پہ لیے پھرتے ہیں۔ ہمہ وقت چوکنے‘ ہمہ وقت چوکس۔
میں یونی ورسٹی کی حدود سے باہر نکلا تو ابھی تک بارش ہورہی تھی۔مرگلہ کی پہاڑیاں‘ چیر کے درخت‘ زمستانی ہوا سے کمہلایا ہو ا سبزہ۔مجھے ایئر چیف کا کمرا یاد آتا رہا جہاں روشنی کے ایک ہالے نے مجھے اپنی گرفت میں لیاتھا۔ ”ہم اپنے بچوں کو علم کی روشنی سے منور کریں گے“۔ ”ایئر فورس کے تمام ویلفیئر فنڈ سود سے پاک ہوں گے“۔ یہ باتیں دیر تک کانوں میں گونجتی رہیں۔مجھے یوں لگا وہ وقت دور نہیں جب یہ باتیں سکہ رائج الوقت کا مقام حاصل کرلیں گی۔ کیا ہم جہالت میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ کیا ہم خدا سے جنگ جیت سکتے ہیں۔