05 Jul

Ak Ajeeb Sawal-ایک عجیب سوال

یہ دو اچھے لوگوں کی کہانی ہے۔ ایک قابلِ تقلید مثال۔ ہمیں ایسی مثالوں کو یاد رکھنا چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خدمت دولت سے نہیں معمولی ایثارسے بھی ہو سکتی ہے۔ بس ایک دردمند دل درکار ہے جو دوسروں کے لئے دھڑکنے کی خواہش رکھتا ہو۔
وارن بو فے دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہ پہلے نمبر پر تھا لیکن بل گیٹس کی دولت نے اسے دوسرے نمبر پر دھکیل دیا۔ وارن بوفے کئی طرح کے کاروبار کرتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ اس کا پسندیدہ شعبہ ہے۔ اسے دولت کمانے کا فن آتا ہے۔ وہ چاہے تو مٹی کو سونا بنا دے۔ وارن بوفے نے ٗجو کچھ عرصہ پہلے تک خالصتاََکاروباری ذہنیت رکھتا تھا ٗ جب اپنی دولت کا نوے فیصد حصہ خلقِ خدا کے لئے دینے کا اعلان کیا تو لوگ حیران رہ گئے۔ یہ نوے فیصد دولت کم ازکم تیس بلین ڈالرز پر مشتمل ہے۔ تیس بلین کتنے ہوتے ہیں اس کا اندازہ شاید عام لوگوں کو نہ ہو۔ تاہم اتنا سمجھ لیجئے کہ یہ رقم پاکستان کے بجٹ سے بھی زائد ہے۔ یعنی ایک سال تک حکومتِ پاکستان کے تمام انتظامی اخراجات ٗ ترقیاتی منصوبے ٗ قرضوں کی ادائیگی اور فوجی مصارف اس رقم سے پورے ہو سکتے ہیں۔
وارن بوفے کے تین بچے ہیں ان بچوں نے بھی اپنی اپنی دولت مختلف فاؤنڈیشنز کے نام کر رکھی ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے اپنی دولت اس طرح بانٹنے کا فیصلہ کیوں کیا تو اس کا کہنا تھا کہ میں اپنی دولت کا صرف ایک فیصد اپنے پاس رکھ لوں تو اسی طرح کی عالیشان زندگی گزار سکتا ہوں ٗ جیسی اب گزار رہا ہوں۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں صحیح ملک میں ٗ صحیح وقت پر پیدا ہوا۔ میں جو کام کرتا ہوں اس کا معاوضہ ٗ ایک استاد کواتنے ہی کام کے عوض ملنے والے معاوضہ ٗسے کہیں زیادہ ہے۔ میں اس عطیہ کے ذریعے وہ زائد معاوضہ واپس لوٹا رہا ہوں جس کی میری زندگی میں کوئی اہمیت نہیں۔ جو مجھے صرف اس لئے ملا کہ میں ایک صحیح ملک میں صحیح وقت پر پیدا ہوا………… اس نے یہ بھی کہا کہ میرے نزدیک اچھے لوگ تو وہ ہیں جو ایک وقت کا کھانا نہیں کھاتے یا پھر کسی شام کوئی فلم نہیں دیکھتے اور یوں بچائی ہوئی رقم ضرورت مند لوگوں کو پیش کر دیتے ہیں۔
یہ لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ اس کی مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ امریکہ کی ہی ایک اور خاتون جس کا نام میکارتھی ہے۔ ستاسی سالہ سیاہ فام میکارتھی چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی ٗ جب اسے سکول سے اٹھا لیا گیا۔ غربت کی بدولت ماں باپ نے اسے اس کی بیمار خالہ کے گھر بھیج دیااور اس نے بقایا عمر اسی خالہ کے ہاں گزار دی۔ وہ خالہ کی خدمت کرنے کے علاوہ لوگوں کے کپڑے دھوتی ٗ گھروں کی صفائی کرتی اور مختلف خاندانوں کے باورچی خانوں کو سنبھالتی۔ عمر بھر اس کی شادی بھی نہ ہو سکی۔ اس نے ساری زندگی ایک خستہ حال مکان میں گزار دی۔ لیکن اس تمام عرصہ میں وہ ایک ایک ٗ دو دو ڈالر کی رقم بچاکر اپنے خفیہ صندوق میں رکھتی رہی۔ ایک بار مقامی بنک کے ایک افسر نے اسے کہا کہ اسے یہ رقم بنک میں رکھنی چاہیے جہاں اس رقم پر اسے منافع بھی مل سکتا ہے۔ میکارتھی نے اس کی بات مان لی اور یوں بنک سے ملنے والے منافع نے اس رقم میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ 1994میں جب وہ اسی سال کی ہوئی تو بنک نے بتایا کہ اس کے اکاؤنٹ میں تقریباََ اڑھائی لاکھ ڈالر جمع ہو چکے ہیں۔ ”ہیں! اتنی زیادہ رقم۔ میں اتنے پیسوں کا کیا کروں گی“۔ بوڑھی میکارتھی نے چند دن سوچا اور پھر اس رقم میں سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر ایک یونیورسٹی کو دینے کا اعلان کر دیا۔ کچھ رقم چرچ اور مستحق رشتہ داروں میں تقسیم کر دی گئی۔میکارتھی سے جب پوچھا گیا کہ وہ یہ رقم یونیورسٹی کو کیوں دے رہی ہے تو اس کا کہنا تھا کہ”میں خود تو علم حاصل نہیں کر سکی لیکن میں چاہتی ہوں کہ مجھ جیسے غریب تعلیم کی روشنی سے محروم نہ ہوں۔ جو رقم میں نے جمع کی وہ دراصل میری فیس تھی جو میں ادا نہ کر سکی۔ میں یہ فیس سکول اور کالج کو دینے کی بجائے بنک میں ڈالتی گئی۔ میں سمجھتی ہوں کہ میری اس فیس سے اب جو بچے پڑھیں گے وہ میری ہی آرزؤں کو پورا کریں گے۔“
خواتین وحضرات! امیر‘ وارن بوفے اور غریب میکارتھی۔ یہ دونوں انسانیت کے خدمت گار ہیں۔ وارن بوفے کا مقام بڑا ہے یامیکارتھی کا۔ اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ تیس بلین ڈالرز کے مقابلہ میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ”بہت کچھ“ دینے والے اور ”سب کچھ“ دینے والے برابر ہو سکتے ہیں۔ کیا ایک غریب کی طرف سے دیئے گئے دس روپے ایک بڑے آدمی کے دس لاکھ سے کم ہیں۔ میرے پاس اس سوال کا جواب ہے ٗ شاید آپ کے پاس بھی ہو۔