لوگ غریب کیوں ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ معاشی‘ سیاسی اور سماجی۔ ایک وجہ کا اندازہ آپ کو اس کہانی سے ہوگا۔اس شخص کا نام تیواڑی تھا۔اد ھیڑ عمر‘ پستہ قد اور تبتی نقش و نگار۔میری اس سے
تاریخ ایک ہی جیسے واقعات ردوبدل کے ساتھ دہراتی رہتی ہے۔ عقل مند وہی ہیں جو ان واقعات سے سبق حاصل کریں۔ضد اور انا کے ہاتھوں مصلوب نہ ہوں۔
آج تیرہ جولائی 2014 ہے لیکن تاریخ کا یہ واقعہ پورے
کیا امریکا ایک اور جنگ کی تیاری کررہا ہے۔کشت وخون‘آگ‘راکھ اور دھواں۔
بہت سے لوگ‘ جن میں سرِ فہرست خود امریکی ہیں‘ ان خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ امریکا عراق میں ایک اور جنگ پہ آمادہ ہورہا ہے۔ کشت
یہ ترکی کے سلطان محمد فاتح کا پُر شکوہ محل ہے۔
محل کی دیوار کے ساتھ کھڑا میں بہت دور دیکھ رہا ہوں۔ آبنائے فاسفورس میرے سامنے ہے۔پُر سکون‘ گہرا نیلا پانی اور پانی کو چھو کر اُڑتے ہوئے پرندے۔
خواتین و حضرات
ماضی ایک گل دستے کی طرح ہے جس سے آنے والی مہک مشامِ جاں کو معطر رکھتی ہے۔
اسی حوالے سے میں آج‘ اپنی دو یادیں آپ کے گوش گذار کروں گا۔ یہ یادیں نہیں ماضی کے
اس شخص کا نام بہرام ڈی آواری ہے۔ یہ پاکستان کی پارسی کمیونٹی کا سربراہ ہے۔ اس کی شیریں بیانی متاثر کرتی ہے۔ اس نے اپنی کہانی شروع کی تو دل میں جگہ بنانے لگا۔ سچ کی اپنی طاقت ہوتی
لیاری‘خوف کی علامت ہے۔ جرم‘ مافیا‘ بدامنی‘ قتل و غارت۔ لوگ یہاں جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ لیکن لیاری کی ایک پہچان اور بھی ہے۔ اس پہچان کا نام کرن سکول ہے۔
کرن سکول کے بارے میں کچھ لکھنا بے حد
یہ کوئی باغ ہے یا پھر جنت الفردوس کاٹکڑا۔ وہ جو اقبال نے کہا
جہان تاز ہ کی افکار ِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہ جگہ سنگ و خشت بھی ہے
اے خدا! تھر کو چشموں کی ٹھنڈک دے‘ ابرِ بہار کا سایہ دے۔ علم کا نور دے۔
ضلع تھر پارکر۔ سندھ کا اہم حصہ ہے جس کی سرحدیں بھار ت کی سرزمین سے ملتی ہیں۔ مٹھی نامی شہرتھر کا صدر
محبت‘ ایثار‘ رواداری‘ عفوو درگزر……کبھی یہ ہمارا طرزِ عمل تھا۔ اوڑھنا بچھونا۔ اب تو یہ ایک کہانی ہے۔ مجھے یہ سب کچھ‘ چند خبریں پڑھ کریاد آیا اور پھر یہ یاد آنسوؤں کی ایک لڑی میں ڈھل گئی۔
”لاڑکانہ میں